بدعنوانی کی جونک نے ملک کی ساری سیاسی جماعتوں اور
رہنماو ں کو کھوکھلا کردیا ہے(الاماشاء اللہ) ۔ ابھی حال میں اترپردیش کی
قانون ساز کونسل کے 36؍ ارکان کا انتخاب ہوا جن میں 33؍ بی جے پی کے ہیں
لیکن سب سے سب کروڈ پتی ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ اب پارٹیاں صرف کروڈ
پتی لوگوں کو ٹکٹ دینے لگی ہیں اور ان سارے کروڈ پتی سیاستدانوں نےمحنت
کرکے یہ دولت کمائی ہے؟ ایسا اگر ہے تو انہیں اپنے غریب عوام کے مسائل حل
کرنے کے لیے وقت کیسے ملتا ہے؟ اور اگر نہیں ملتا تو یہ انتخاب میں کیسے
کامیاب ہوجاتے ہیں؟ ایسے کئی سوالات ہیں جن پر عوام کو غور وخوض کرنا چاہیے
لیکن اگر انہیں لاوڈ اسپیکر اور ہنومان چالیسا میں الجھا دیا جائے تو اس
کےشور شرابے میں بھلا وہ ٹھنڈے دماغ سے کوئی بات کیونکر سوچ سکتے ہیں ؟ ملک
میں ایک ایسی فضا بنادی گئی ہے کہ ہندو رائے دہندگان کی ناراضی سے بچنے کی
خاطر کسی سیاسی رہنما میں ہنومان چالیسا پر کھل کر بولنے کا حوصلہ نہیں ہے
ایسے میں لالو پرساد یادو کی ذاتِ والا صفات استثناء ہے ۔انہوں بغیر لاگ
لپیٹ کے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد خود اسے ٹویٹ بھی کردیا۔
لالو پرساد یادو نے کہا:’’ہنومان چالیسا پڑھنا ہے تو مندر میں جائیں ۔ مسجد
میں کیوں جاتے ہو؟ یہ دراصل چڑھانے کی کوشش ہے تاکہ لوگ ردعمل کا اظہار
کریں اور اس کے نتیجے میں فساد بھڑکے ۔ ایسا کرنے والے لوگ ملک کو توڑ رہے
ہیں‘‘۔ انتخابی مفاد سے اوپر اٹھ کر اس طرح دو ٹوک انداز میں اپنی بات
رکھنا فی الحال کسی سیاسی رہنما کے بس کا روگ نہیں ہے۔ لالو یادو نے یہ
مسئلہ اچھالنے والوں کو صاف سیدھے فسادی اور ملک دشمن عناصر قرار دے دیا۔
اس بیان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج کچھ لوگوں کو چھوڑ کر جہاں ہر
بدعنوان سیاسی رہنما عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے لالو پرساد یادو کیوں
عرصۂ دراز سے قیدو بند کی صعوبت برداشت کررہے ہیں ؟ سچ تو یہ ہے کہ لالو
پرساد یادو ایک ایسے رہنما ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی ممتا یا نتیش کمار کی
مانند بی جے پی کا ساتھ نہیں دیا ۔ لال کرشن اڈوانی کی منافرت پھیلانے والی
رام رتھ یاتر ا جب پورے ملک میں بلا روک ٹوک گھوم رہی تھی تو اس کو روکنے
کا حوصلہ دکھایا ۔ اڈوانی کو حراست میں لے کر جیل بھیجنے والے رہنما میں یہ
صلاحیت ہے کہ وہ اپنے اطراف بی جے پی مخالف حزب اختلاف کو متحد کرسکیں ۔یہی
وجہ ہے کہ ا ن سے بی جے پی کو ڈر لگتا ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ لالو جیل سے
نکل کر عوامی زندگی میں آئیں۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے جب لاوڈ اسپیکر اور اذان کی بابت سوال کیا گیا تو
انہوں نے اس کو فالتو بات کہہ کر ٹال دیا۔ ویسے تو نتیش کمار بھی جئے پرکاش
نرائن کی تحریک میں لالو پرساد یادو کے ساتھ تھے مگر جب آر جے ڈی بنائی
گئی تو وہ سمتا پارٹی بناکر الگ ہوگئے جو اب جے ڈی یو ہے۔ ان دونوں رہنماوں
کے درمیان فکری اختلاف کبھی نہیں رہا۔ لالو پرساد یادو کو جب اقتدار سے
ہٹنا پڑا تو اس وقت اگر وہ اپنی بیوی رابڑی دیوی کے بجائے نتیش کو وزارت
اعلیٰ کی کرسی سونپ دیتے توممکن ہے آج بھی دونوں ایک ساتھ ہی ہوتے۔ ان کے
ساتھ رہنے سے بی جے پی کو کبھی بھی بہار میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملتا
لیکن خیر جو ہونا تھا سو ہوچکا ۔ نتیش کمار پہلے اٹل جی کی سرکار میں مرکزی
وزیر ریلوے بنے اور پھرقومی جمہوری محاذ میں شامل ہوکر بہار کے وزیر اعلیٰ
بن گئے ۔ 2013 میں جب نریندر مودی قومی سطح پر سیاسی افق پر نمودار ہوئے تو
نتیش نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ لالو یادو نے ان کے اس فیصلے کا
خیرمقدم کیا اور اپنی حمایت سے پھر وزیر اعلیٰ بنوا دیا ۔
مرکز میں تونریندر مودی کو اقتدار میں آنے سے نہیں روکا جا سکا لیکن بہار
کے اسمبلی انتخاب میں لالو اور نتیش کی جوڑی نے بی جے پی کو دھول چٹا دی۔
اس بار جے ڈی یو سے زیادہ نشستوں پر آر جے ڈی فاتح رہی پھر بھی وزارت اعلیٰ
کی کرسی نتیش کو سونپی گئی۔ بی جے پی نے سرجن گھوٹالے میں نتیش کمار کو
بلیک میل کرکے اپنے ساتھ لے لیا۔ اس وقت نتیش کو وزارت اعلیٰ کی کرسی یا
لالو یادو کی مانند جیل میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا ۔ انہوں نے جیل پر
کرسی کو ترجیح دی ۔تب سے بی جے پی کے لیے نتیش کمار سہارا اور گلے کا نٹا
بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بغیر آر جے ڈی کو اقتدار میں آنے سے روکنا ناممکن
تھا مگر ان کے ہوتے اپنا وزیر اعلیٰ بنانا بھی ممکن نہیں تھا ۔ اس مسئلہ کا
یہ حل نکالا گیا کہ اگلے انتخاب میں چراغ پاسوان کے ذریعہ نتیش کمار کو
کمزور کیا جائے اور پھر جن شکتی پارٹی کے ساتھ حکومت بناکر اپنا وزیر اعلیٰ
مسلط کردیا جائے۔ اس مقصد میں بی جے پی کو جزوی کامیابی ملی ۔ نتیش کمار
کمزور تو ہوئے مگر پاسوان کا چراغ پوری طرح بجھ گیا نیز بی جے پی کا وزیر
اعلیٰ والا منصوبہ بھی خاک میں مل گیا ۔’ مرتا کیا نہ کرتا‘ نتیش کمار کو
وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔
بہار کی سیاسی صورتحال فی الحال بڑی دلچسپ ہے۔ وہاں سب سے بڑی پارٹی آر جے
ڈی حزب اختلاف ہے۔ دوسرے نمبر کی بی جے پی حکومت میں صغیر شراکت دار ہے اور
تیسرے نمبر کی پارٹی کا سربراہ وزیر اعلیٰ بنا ہوا ہے۔ یہ چیز دونوں کے لیے
پسندیدہ نہیں بلکہ مجبوری ہے ۔ نتیش کے سامنے اب کئی چیلنجس ہیں ۔ اول تو
یہ کہ آئندہ قومی انتخاب میں بی جے پی اگر اسمبلی کی بنیاد پر ٹکٹ تقسیم
کرنے پر اصرار کرے گی تو ان کے حصے میں بہت کم نشستیں آئیں گی کیونکہ ان
کے ارکان اسمبلی کی تعداد تینوں میں سب سے کم ہے۔ بی جے پی کے پیٹھ میں
چھرا گھونپنے کی حکمت عملی سے اگر جے ڈی یو کا زوال جاری رہا تو بعید نہیں
کہ اگلے الیکشن میں دیگر دونوں جماعتیں ان کے حمایت کی ضرورت سے بے نیاز
ہوجائیں ۔ تیسرا سنگین ترین مسئلہ عمر کا ہے۔ درازیٔ عمر کے سبب اگلی بار
پھر سے ان کا وزیر اعلیٰ بننا مشکل ہے۔ ایسے میں اگر وہ سبکدوش ہوجائیں تو
ان کے ساتھ کام کرنے والے رہنما اور ووٹرس کہاں جائیں گے؟ کیا وہ اپنے
سماجوادی حلقۂ اثر کو بی جے پی کے لیے ترنوالہ بنانے پر راضی ہوجائیں گے؟
یہ سوال نتیش کمار کو یقیناً پریشان کرتا ہوگا۔ بہار کی سیاسی صورتحال کے
انڈر کرنٹ کو ان سوالات کی مدد سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نتیش کمار ہر سال افطار پارٹی کا اہتمام کرتے رہے ہیں
لیکن اس سال اس کو ذرائع ابلاغ میں خوب دکھایا گیا۔ اس افطار پارٹی میں بی
جے پی رہنماوں کی شرکت کے چرچے ہوئے ۔ اس کے بعد رابڑی دیوی کی افطار پارٹی
میں چراغ پاسوان کے علاوہ نتیش کمار نے بذاتِ خود شرکت کی۔ یہ بات چار سال
قبل اس وقت ہوئی تھی جب نتیش کمار اور لالو یادو ایک ساتھ تھے ۔ اس کا بھی
ایک سیاسی پیغام ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ کو بہار کا
دورہ کرنا پڑا حالانکہ وہ انتخابی مہم کے علاوہ کبھی بھی کسی ریاست کا دورہ
نہیں کرتے۔ وزیر اعلیٰ نے سرکاری پروٹوکول نبھاتے ہوئے گلدستے کے ساتھ وزیر
داخلہ کا استقبال کیا ۔ اس ملاقات میں امیت شاہ نے پھر سے نتیش کمار کو جیل
جانے کی دھمکی تو ضرور دی ہوگی لیکن کیا یہ اب بھی وہ کارگر ہوگی؟ یہ کہنا
مشکل ہے ۔ بہار کی سیاست میں ہونے والی نئی دلچسپ تبدیلیوں سے بھی نتیش
کمار واقف ہوں گے ۔
تیجسوی یادو نے پہلے تو نوجوانوں کا دل جیتا لیکن ذات پات کی تقسیم ان کے
آڑے آگئی۔ اس لیے اب انہوں نے بی جے پی کے سب سے بڑے حامی بھومی ہار سماج
میں سیندھ لگائی ہے۔ اس سے ان کا ڈبل فائدہ ہے کیونکہ ہر بھومی ہار برہمن
جب آرجے ڈی کو ووٹ دے گا تو بی جے پی ایک ووٹ کم بھی ہوگا اور گری راج
سنگھ جیسے بدزبان رہنما کی کامیابی کو خطرہ لاحق ہوجائےگا۔ اس بار قانون
ساز کونسل کے انتخاب میں آر جے ڈی کے چار بھومی ہار امیدوار کامیاب ہوئے۔
ابھی حال میں تیجسوی یادو نے بھومی ہار سماج کے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ
ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گے۔ اس طرح اب آر جے ڈی کے ووٹ بنک میں یادو اور
مسلمانوں کے علاوہ بھومی ہار سماج کا اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں اگر چراغ
پاسوان اپنے دلت ووٹ کے ساتھ مہاگٹھ بندھن میں شامل ہوجائیں اور وہاں نتیش
کمار بھی موجود ہوں تو بی جے پی کا کمل پوری طرح بکھر جائے گا ۔نتیش کمار
اگر پھر سے پلٹی مارتے ہیں تو آر جے ڈی انہیں کو وزیر اعلیٰ بنائے گی اس
طرح اگر ان کا کوئی فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہ ہوگا لیکن بی جے پی کے
ذریعہ ہونے والی رسوائی سے وہ نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ انتقام بھی لے سکیں
گے ۔ نتیش کمار کی سیاسی زندگی کا اس سے بہتر اختتام نہیں ہوسکتا کہ ان کی
سیاسی کھیتی زعفرانیوں کے قبضے میں جانے سے بچ جائے ۔ اس طرح بہار میں پھر
سے بہار آسکتی ہے اور یہ بی جے پی کی اترپردیش میں کامیابی پر گہن لگا دے
گی۔
|