اقبال ایک بار ہی اس دنیا میں آئےمگراپنی فکر کی وہ وہ
رنگینیاں زمانے کو عطا کر گئےکہ آج بھی لوگ انھیں رنگوں سے اپنی تصویریں
بنا رہے ہیں۔اقبال کی اردو، فارسی شاعری میں اگرچہ فنی و فکری خصوصیات ارفع
ہیں مگر فکری طور پر جو پہلواقبال اپنے خطبات میں سامنے لائے،اس سے افکار
کی ایک نئی دنیا آباد ہوتی ہے اور اقبال کو پڑھنے والے یا اقبال سے تھوڑی
سی بھی نسبت رکھنے والے اس دنیا کو دیکھتے بھی ہیں، سمجھتے بھی ہیں اور کچھ
تو پھر بہت کچھ کہنے بھی لگتے ہیں۔
اقبال نے جہاں اور بہت سے موضوعات اور نکات پر فلسفیانہ انداز میں اپنا
مؤقف بیان کیا وہیں فرد کی تعریف بھی کی۔ یعنی صرف خود پر انحصار کرنے والی
ذات، جو کسی بھی طرح سے کسی اور کو جوابدہ نہ ہو۔ اس کے پاس مکمل اختیار ہے۔
اور یہ ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اسے انائے مطلق بھی کہا گیا۔ کہ اللہ
میں تولد نہیں، جیسا کہ سورۃ اخلاص میں واضح بتایا گیا کہ نہ وہ کسی کی
اولاد ہے اور نہ اسکی کوئی اولاد ہے۔ یعنی رب تعالیٰ اپنی اس صفت میں بھی
پاک اور خاص ہیں۔
پھر اسی طرح اقبال بارہا خودی کو متعارف کرواتے ہیں، اس کے افکار اور اساس
کی بات کرتے ہیں تو گویا مفہومِ فکر کچھ اس طرح سے کھل کر سامنے آتا ہے کہ
انسان کی انا محدود ہے جسے خودی بھی کہا گیا۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی خودی
ہے یعنی انائے مطلق وہ مکمل ہے اور اسی نے اپنی اس خودی کہ چھوٹے چھوٹے
ٹکڑے انسان کو عطا کیے۔ جیسے رب تعالیٰ نے اپنی محبت کا ایک چھوٹا عنصرماں
میں رکھا ہے اور کہا کہ وہ بندے سے اس کی ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا
ہے۔
اب تک جتنی بات ہوئی یہ کافی حد تک پہلے کی گئی باتوں کا نچوڑ تھا مگر میرے
ذہن میں آنے والی نئی بات یہ ہے۔ حالاں کہ یہ حقیقت تو موجود تھی آشکار اب
ہوئی، کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اللہ کے آخری نبی ہیں اور
جن کے واسطے یہ جہاں تخلیق ہوا، اگر ہم زرا غور کریں تو جس طرح اللہ تعالیٰ
خود تولد سے پاک ہے اسی طرح اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی
ایک جھلک یا خاصیت رکھی۔ کہ اس سے قبل بیشتر نبوت کا سلسلہ ایک نبی سے
دوسرے نبی تک آگے بڑھتا تو وہ ان کی اولاد ہوتی جیسے حضرت ابراہیم علیہ
سلام سے حضرت اسماعیل علیہ سلام، حضرت اسحاق علیہ سلام سے حضرت یعقوب علیہ
سلام یا حضرت یعقوب علیہ سلام سے حضرت یوسف علیہ سلام ۔۔۔۔۔ جب کہ یہاں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں بلکہ آپ صلہ اللہ علیہ وسلم
کو بیٹے عطا کر کے واپس لیے گیے۔
اور اس کے بعد صحابہ کی محبت کے پیشِ نظر قرآن میں واضح فرمایا گیا۔ ' اور
محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی شخص کے باپ نہیں' یعنی اللہ تعالیٰ
نے یہاں تولد کے دو حصوں میں سے ایک کو کم کر دیا۔ گویا رب تعالیٰ کی انائے
مطلق کے بعد اگر کسی کی خودی اتنی بلند ہے یا کوئی فرد کی تعریف کے قریب
ترین ہیں تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خودی سے آشنا بھی تھے اور
شناسا بھی تھے، جب کہ انسان میں انائے مطلق کا ایک چھوٹا سا جاہر خودی کی
صورت موجود ہے۔ قرآن میں بارہا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ' کہ ہم شہ رگ سے
بھی زیادہ اس کے قریب ہیں' ۔ من کی کھوج سے ہی وہ ملتا ہے جس کو انسان من
سے باہر تلاش کرتا رہتا ہے،یہی خودی کا وہ جوہر ہے جس کو بروئے کار لا
کرانسان حتمی منازل طے کر سکتا ہے۔ شائید منصورحلاج بھی اپنی خودی کے اسی
جوہر سے واقف ہو گیے تھے، ادراک حاصل کر لیا تھا اور انکا انا الحق کا نعرہ
دراصل وہی خودی تھی یو درحقیقت انائے مطلق کا ہی ایک چھوٹا جوہر ہے۔
اگرچہ انسان کے اندر وہ طاقت، روحانیت موجود ہے بس اس کی پہجان کی اور
ادراک کی ضرورت ہے کہ پھر انسان تسخیر بھی کر سکتا ہے، تعمیر بھی کر سکتا
ہے، دنیا کی تصویر بھی بدل سکتا ہے اور تقدیر بھی بدل سکتا ہے۔
|