بحثیت قوم اپنے اندر کے گوہر کو پہچانیں

ایک دن جنگل کے سارے جانور اکٹھے ہوئے تا کہ ایک سکول بنائیں۔ خرگوش، کوا، گلہری اور سانپ نصاب بنانے کے ذمہ دار قرار پائے،
خرگوش نے بھاگنے، کوے نے اڑنے اور سانپ نے تیراکی کو نصاب کا حصہ بنانے کی سفارش کی، جبکہ گلہری کی ضد پر درختوں کے اوپر چڑھنا بھی نصاب میں شامل کر لیا گیا۔ سکول کی انتظامیہ نے تمام تجاویز پر غور کیا اور منظوری دے دی کہ سارے جانور تمام مضامین کو پڑھیں گے۔
جب سال کے آخر میں رزلٹ آیا تو تمام جانوروں کی پراگرس رپورٹ میں خرگوش نے دوڑنے میں 100 نمبر حاصل کئے لیکن ایک درخت سے دوسرے درخت پر اڑنے کی کوشش میں زور سے گرا اور دماغ پر سخت چوٹ لگنے کیوجہ سے بعد میں دوڑنے میں بھی پاس نمبر حاصل نہ کر سکا۔ پرندے نے اڑنے میں تو مکمل نمبر لئے، لیکن زمین پر دوڑنا اسکے لئے سخت امتحان تھا وہ پاس نمبر بھی نہ لے سکا، گلہری کیلئے درختوں پر چڑھنا اترنا تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن اڑنے میں فیل اور تیرنے میں 33 نمبر بھی نہ لے سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکول کے سب ذمہ داران اور منتظمین اس بات پر خوش تھے کہ سارے سٹوڈنٹس سارے مضامین پڑھ رہے ہیں .
........ ۔

ممکن ہے آپ اس تمثیل پر مسکرائیں لیکن حقیقت یہ ہے قدرت نے ہر فرد میں ایک خاص خوبی رکھی ہوتی ہے۔ بہترین نظام تعلیم وہ ہوتا ہے جس میں ہر ایک فرد کو ایسی راہنمائی فراہم کی جائے کہ وہ اپنے اندر موجود گوہر کو پہنچان سکے اور پھر اس میدان میں اسکی تعمیر اور ترقی کے لئے تمام اسباب اور وسائل فراہم کیے جائیں۔
ہمارے جوانوں کو اول تو اپنے اندر موجود گوہر کا پتہ ہی نہیں ہوتا اور اگر پتہ چل بھی جائے تو حکومت کی طرف سے کوئی نظام ہی نہیں کہ اس گوہر کو شگوفہ کر سکے۔
نہ جانے کیوں لوگ ہر فن مولا بننے کی کوشش کیوں کرتے رہتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک فن اختیار کریں اور اس میں فنکار بنیں۔

دنیا میں اپنا نام پیدا کرنے والے افراد صلاحیتوں کے اعتبار سے آپ سے زیادہ تفاوت نہیں رکھتے تھے۔ فقط انہوں نے اپنے اندر کی صلاحیتوں کو سمجھا اور پھر پوری قوت کے ساتھ انکو استعمال کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کریں کہ اگر علامہ اقبال شاعر اور مفکر بننے کی بجائے آرٹ، بو علی سینا فلاسفر بننے کی بجائے شاعر، نیوٹن ایڈیسن سائنسدان کی بجائے مقرر، جابر بن حیان کیمسٹری کی بجائے مولوی، بل گیٹس بزنس کی بجائے اپنے آپ کو سپورٹس میں لا کر فٹبال کا کھلاڑی یا ، مولانا طارق جمیل، محض حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب،مفتی محمد منیب الرحمن صاحب،ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان،حضرت مولانا محمد فضل الرحمان صاحب ، علامہ احسان الٰہی ظہیر یا دوسرے کامیاب علماء کرام اس شعبہ کی بجائے کوئی دوسرا شعبہ زندگی انتخاب کرتے تو کیا ایک کامیاب انسان ہوتے ؟
یقینا آپ کا جواب ہو گا نہ نہ نہ ۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہمارے نظام تعلیم کا مقصد فقط بہترین نمبروں کے ساتھ سند کا حصول بن چکا ہے.


میں سوال کرتا ہوں کہ اگر آج حکومت اعلان کر دے کہ بغیر اسناد کے بھی نوکری ملے گی تو کتنے افراد علم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے؟
شاید نہ ہونے کے برابر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد فقط نوکری بن گیا ہے،
موجودہ نظام تعلیم کے مطابق صحیح فیصلہ کرنے کا معیار انگریزی بولنا ہے اس طرح کورٹ میں بیٹھا جج بہتر جبکہ معاشرے کے مسائل کو بہتر سمجھنے اور حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا نیک سمجھدار دیندار انسان غلط ہے۔
اگر علم و شعور کا معیار انگریزی جاننا ہے تو لندن میں رہنے والا ایک 12 سالہ آوارہ گرد لڑکا ہمارے وزیراعظم سے زیادہ اہل علم اور باشعور ہونا چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ علم ، فن ، اور معلومات میں فرق ہوتا ہے جس نظام تعلیم کا مقصد لوگوں کو معلومات دینا اور فنون سیکھانا بن جائے جبکہ علم و شعور ثانوی حیثیت اختیار کر لیں وہاں ڈاکٹر آخری سانس لینے والے مریض اور وکیل مظلوم کے کیس کو اس وقت تک ہاتھ نہیں لگاتے جب تک انکی فیس ادا نہیں ہو جاتی ،اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے آمین.
 

Qazi Nadeem Ul Hassan
About the Author: Qazi Nadeem Ul Hassan Read More Articles by Qazi Nadeem Ul Hassan : 155 Articles with 164197 views Civil Engineer .. View More