ہم نے اپنے ایک مضمون میں اس سے پہلے زکوٰۃ کے سلسلےمیں
لکھا تھا،جس میں انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے حوالےسے بتایاتھاکہ
اسوسیشن آف مسلم پروفیشنل(اے ایم پی) کے ذریعے کروائے گئےسروےمیں اس بات
کی اطلاع دی گئی تھی کہ بھارت میں اوسطاً8 ہزار سے20 ہزار کروڑ روپئے کا
سالانہ زکوٰۃ نکالاجاتاہے،اس زکوٰۃ کا60 فیصد حصہ مدارس اسلامیہ حاصل کرنے
میں کامیاب ہوتےہیں،20 فیصد حصہ ایسی تنظیمیں وصول کرتی ہیں جو خدمتِ خلق
اور تعلیمی شعبوں میں خدمات انجام دیتی ہیں۔10 فیصدحصہ ایسی تنظیمیں حاصل
کرتی ہیں جو صرف نام کیلئے کام کرتی ہیں ،عمل کے میدان میں ان کاکردار کچھ
نہیں ہوتا،باقی 10 فیصد حصہ مسلمان اپنوں میں تقسیم کرتے ہیں۔زکوٰۃ کے
علاوہ بھی مسلمانوں کی امداد ی رقومات حالتِ حاضرہ کے تحت تعلیم پر خرچ
نہیں ہورہاہے۔آج بھارت کی سوسے زائد یونیورسٹیوں میں صرف 6 یونیورسٹیاں
مسلمانوں کے ماتحت ہیں جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامع ہمدردآزادی
سے قبل تشکیل پائی ہیں،بقیہ یونیورسٹیاں اس وقت قائم شدہ ہیں،جہاں پر بھی
تعلیم کے مواقع فراہم ہیں۔بھارت کی آبادی کے21 فیصد آبادی مسلمانوں کی
ہے،لیکن مسلمان اس شعبے میں ایک فیصد سے کم اپنی حصہ داری پیش کررہے
ہیں۔آج بھی مسلمانوں کے یہاں ثواب جاریہ کانکتہ مسجد اور مدرسے ہیں اور
آج بھی مسلمانوں کی سوچ تجارت کے سلسلے میں لے آئوٹ بنانا،زمینوں کا
ڈیولپمنٹ کرنا،شادی محل بنانا اور اپارٹمنٹس بناکر کرایہ پر دینا ہی رہ
گیاہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کی سوچ آگے نہیں بڑھ پارہی ہے۔کئی مالدار تو
ہیں ایسے ہیں جن کی سینکڑوں ایکر زمینیں خالی پڑی ہوئی ہیں اور ان زمینوں
پر نہ فصلیں اُگائی جارہی ہیں،نہ ہی اسے کسی کام کیلئے استعمال
کیاجارہاہے۔حصاربندی کے ماتحت ان زمینوں کو محفوظ کیاگیاہے۔جب بھی اس سلسلے
میں سوال ہوتاہے تو کہاجاتاہے کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کیلئے ان زمینوں کو
محفوظ کیاگیاہے،ہمارے بچوں کی اچھی زندگی کیلئےلے آئوٹس بنائے گئے
ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان خالی زمینوں کو رکھنے کے بعد آنے والی نسلیں
ان پر فصل بونے کا کام نہیں کرینگی بلکہ اچھی قیمتوں پر انہیں فروخت
کردیگی،اس کے بعد کی نسلیں پھر کمانے کیلئے مجبو رہوجائینگی۔بھارت کے کئی
ایسی تعلیمی ادارے ہیں جو مسلمانوں کیلئے ایک مثال کے طو رپر قبول کئے
جاسکتے ہیں،سینکڑوں ایکر زمینوں پر پھیلے ہوئے تعلیمی ادارے نہ صرف تعلیم
کو عام کررہے ہیں اور صرف خدمتِ خلق کو ہی انجام نہیں دے رہے ہیں بلکہ
باقاعدہ تعلیم کے ذریعے سے تجارت کررہے ہیں جن کا فائدہ ان کی آنے والی
نسلیں عزت کے ساتھ اٹھانے والی ہیں۔آخر مسلمان کیوں اپنے قیمتی
سرمائے،زمینوں اور وسائل کو محدود کررہے ہیں اس کااندازہ نہیں ہورہاہے؟اگر
مسلمان چاہیں تو ایک نہیں بلکہ درجنوں تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں جس سے
نہ صرف وہ آمدنی کا ذریعہ بناسکتے ہیں بلکہ خدمت بھی کرسکتے ہیں۔ہم مسجدوں
ومدرسوں کی تعمیرکو غیر ضروری نہیں سمجھ رہے ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی
تعلیمی اداروں کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ مسلمان اب
اپنے تعلیمی اداروں کو عمل میںلائیں،چند سال معیاری تعلیم کے ذریعے سے اپنی
صلاحیتوں کا لوہامنوائیں،پھر دیکھیں کہ کس طرح سے غیر بھی آپ کے تعلیمی
اداروں میں داخلے لینے کیلئے مجبور ہوجائینگے۔اب مسلمانوں کو دو قدم آگے
کی سوچنے کی ضرورت ہے۔اسلام نے سارے دین کو مسجدومدرسے تک محدودنہیں
کررکھاہے،مسجدکے میناروں کی لمبائی کی اسلام میں اہمیت نہیں ہے،نہ ہی
سینکڑوں ایکر زمین پر محدود بچوں کے مدرسے سے کوئی فائدہ راست طو رپراُمت
کو مل رہاہے۔اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور
دینِ اسلام کی اشاعت وتحفظ کیلئے بہتر تعلیم گاہوں کا قیام کریں جہاں پر
تعلیم حاصل کرنے والے بچے مسلمانوں کی قیادت کیلئےمختلف شعبوں میں جاسکیں۔
|