جمعہ نامہ: مشاورت کی خیرو برکت

انفرادی اور اجتماعی معاملات میں باہمی مشورہ کرنا انسانی فطرت اور ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی یہ صفات بھی بیان کی گئی ہیں کہ : ’’وہ اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ یہاں احکامات ربانی کے ذیل میں پہلے حقوق اللہ یعنی نماز اور آخر میں حقوق العباد انفاق کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کےدرمیان میں مشاورت کی تلقین سے اس اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ صلوٰۃ وانفاق کی اہمیت تو مسلمہ ہے مگر آپس کے مشورے سے کام کرنے کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔ایک سوال یہ ہے کہ انسان مشورے سےکیوں کتراتا ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ خود پسندی ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ اس کی رائے افضل ترین ہے۔وہ دوسروں کے مشورے سے بے نیاز ہے۔ اسے یہ خوف بھی مشورہ کرنے سے روکتا ہے کہ اگر اس کی رائے کو تبدیل کردیا گیا اور اس پر عمل نہ ہوا تو بڑا خسارہ ہوجائے گا ۔ ان اندیشوں کے تحت ایسےمخصوص لوگوں سے مشورہ کیا جاتا ہے جو ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور ا س چالاکی سے کیا جاتا ہے کہ چاروناچار لوگ اس سے اتفاق کرلیں ۔ ایسی بے جان مشاورت سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

مشاورت کی روح اس حقیقت کا اعتراف میں مضمر ہے کہ ایک فرد کی رائے کا نقص دوسروں کے مشورے دور ہوجائے گا ۔ اسی کے ساتھ یہ یقین بھی کہ سبھی کےمشورے سے کیے جانے والے فیصلے میں اللہ تبارک و تعالیٰ خیرو برکت فرمائیں گے ۔ اس کے علی الرغم ضابطے کی مجبوری کے تحت بے دلی سے مشورہ کرلینا ایک بے روح مشق کا رب کائنات کی مددو نصرت سے محروم رہتی ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں : ’’میں نے کسی کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ خیرالبشر افضل الانبیاء ﷺ تو اللہ تعالیٰ کی براہِ راست نگرانی میں تھے ۔ان پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ چشم ابرو کے اشارے پر جان نچھاور کرنے والے صحابہ کو اعتماد میں لینے کی خاطر بھی مشورے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اس کے باوجود امت کے اندر مشاورت کا مزاج پیدا کرنے کی خاطر آپؐ نے اس کا بے حد وحساب اہتما م فرمایا۔

فرمانِ قرآنی ہے :’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گردو پیش سے چھٹ جاتے، اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو،‘‘ یہاں ان لوگوں کو بھی مشورے میں شریک کرنے کی تلقین کی جارہی ہے جن کی غلطی سے غزوۂ احد کی فتح شکست میں بدل گئی تھی ۔ رائے مشورے اور فیصلےکے بعد یہ توکل الی اللہ تعلیم یوں دی گئی کہ :’’ پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایسے معاملات جن میں اللہ یا رسول کا حکم موجود نہ ہوتو انہیں ایسے لوگوں کے مشورے سے طے کرنے کا حکم دیا جو اہل ایمان میں عبادت گزار اور فہم و بصیرت کے حامل ہوں اور کسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ نہ کرنے کا بھی حکم دیا۔ حضرت ابوبکرؓ ایسی صورتحال میں مسلمانوں کے سرداروں اور بہترین لوگوں کو جمع کرکے مشورہ فرماتےاور وہ جس رائے پروہ متفق ہوجاتے تو اس کے مطابق فیصلہ فرماتے۔
مشاورت کے آداب سکھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔جس نے اپنے کسی بھائی کوجانتے بوجھتے اس کے لیے رشد و فلاح سے علی الرغم مشورہ دیا تو اس نے ساتھ خیانت کی۔‘‘ اس بابت ایک حدیث قدسی میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے کو کمتر نہ سمجھے، صحابہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ کوئی اپنے آپ کو کمتر کیسے سمجھ سکتا ہے؟جواب ملا: وہ کسی معاملہ میں کوئی رائے رکھتا ہو لیکن اظہار نہیں کرپاتا تو روز قیامت اللہ ذوالجلال اس سے پوچھے گا کہ فلاں فلاں موقعے پر تمہیں کس چیز نے اظہار رائے سے روکا ؟وہ کہے گا کہ لوگوں کے خوف نے اللہ فرمائے گا: ’’ یہ حق تو میرا تھا کہ تم مجھ سے ڈرتے‘‘۔ یہ کس قدر چونکانے والی حدیث ہے۔ کسی فردِ خاص کی خوشنودی کے لیے یا کسی کے ناراضی یا غضب کے خوف سے اپنی رائے کے اظہار میں کوتاہی اللہ تبارک و تعالیٰ کے قہر کو دعوت دے سکتی ہے۔ رب کائنات امت کو باہمی مشاورت کے حقیقی جذبے سے نوازے اور فیصلوں میں خیرو برکت عطا فرمائے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1230708 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.