بیوروکریٹ ہوتے ہوئے ’’ڈاؤن ٹو ارتھ‘‘ رہنا کسی کسی کو ہی
آتا ہے۔ ہمیں بہت کم ایسے سرکاری افسران ملتے ہیں جو اگلے کو متاثر کر پاتے
ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کے حضور شنوائی کے حوالے سے مجموعی طور
پر لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ کیونکہ انہیں متعلقہ اداروں میں تعاون اور
راہنمائی میسر نہیں آتی۔ تاہم میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ مجھے مختلف
محکموں میں ایسے سیکرٹریز، ڈپٹی سیکرٹریز تک رسائی اور پیشہ ورانہ امور
نبٹانے کیلئے ان کا تعاون حاصل رہا جنہوں نے بیوروکریٹ کی بجائے خود کو
ہمیشہ ’’ورکر‘‘ گردانا۔ شاہد زمان، شہریار سلطان، کیپٹن (ر) محمد آصف، اسد
الرحمن گیلانی، راجہ جہانگیر انور، عائشہ ممتاز، دانش افضال، کاشف منظور،
ثمن رائے اور ایسے ہی چند دیگر کا شمار انہی افراد میں ہوتا ہے۔
بعض پروفیشنل ٹاسک نبٹانے کیلئے میرا بیشتر افسران سے رابطہ رہتا ہے۔ مگر
میں نے جہاں مذکورہ افسران کو ذاتی تشہیر، پروٹوکول اور میڈیا کے لالچ سے
بے نیاز دیکھا، وہیں ان کو ہمیشہ یہ کہتے پایا کہ وہ سیکرٹری یا بیوروکریٹ
سے زیادہ ورکر ہونے کو ترجیح دیتے ہیں اور حکومت نے انہیں جو ذمہ داری
تفویض کی ہے اسے ’’ورکر‘‘ بن کر زیادہ اچھے طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔
شاہد زمان نے ایک مختصر عرصہ بطور سیکرٹری جنگلات پنجاب کام کیا۔ میں نے
شاہد زمان کو اکثر یہ کہتے سنا کہ کوئی مجھے بیوروکریٹ کہے تو اچھا نہیں
لگتا۔ میں ورکر ہوں اور مجھے ورکر بن کر ذمہ داریاں نبھانے میں ہی مزہ آتا
ہے۔ اگر ہم افسر بن کر کام کریں گے تو ٹیم کی جھجک کبھی ختم نہیں ہوگی اور
آپس میں دوریاں رہیں گی۔ شاہد زمان پراجیکٹس کے دورہ جات بھی عام حیثیت میں
کرتے ہیں تاکہ ان کا اپنی فیلڈ ٹیم کے ساتھ تعلق دوستانہ رہے۔
شہریار سلطان آج کل ایک اہم محکمے کے سیکرٹری ہیں۔ ان کے ساتھ جب بھی نشست
ہوئی، ہمیشہ کہتے پایا کہ ہمیں بطور سرکاری ملازم اپنا کام اپنی ڈومین میں
رہتے ہوئے کرنا ہے۔ ’’میڈیا ویڈیا‘‘ پر تشہیر سے کچھ لینا دینا نہیں۔ نہ ہی
ہماری جاب ہمیں اس کی اجازت دیتی ہے۔ شہریار سلطان کہا کرتے ہیں کہ انٹرویو
وغیرہ سیاسی لوگوں کا کام ہے، ہم ایڈمنسٹریٹو لوگ ہیں اور ہمیں ایڈمنسٹریشن
کے کام پر ہی توجہ دینی چاہئے۔
کپپٹن (ر) محمد آصف چند روز قبل تک چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے عہدے پر
فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ کیپٹن (ر) محمد آصف پروٹوکول اور تشہیری کلچر کی
حوصلہ شکنی کرتے ہوئے فقط ذمہ داریوں پر توجہ دینے والوں میں سے ہیں۔
راجہ جہانگیر انور بھی نرم خو بیوروکریٹس میں گنے جاتے ہیں۔ اپنے مودب لہجے
اور محکمانہ ترقی کے ویژن کو لے کر انہوں نے کئی انقلابی اقدامات کئے۔ سب
آرڈینیٹس کی پروموشن، ان کی عزت اور ان کے مسائل کے حل کیلئے سٹینڈ لینے کے
معاملے میں راجہ جہانگیر کو میں نے ہمیشہ معاون پایا۔
انتظامی اور دیگر حیرت انگیز جادوئی صلاحیتوں سے مالا مال ثمن رائے پنجاب
کی بیوروکریسی میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ باصلاحیت خاتون آفیسر ثمن رائے جس
محکمے میں بھی گئیں اس کی ترقی کا ڈاکٹرائن ذہن میں ڈیزائن کر کے گئیں۔
اپنے محکمے کا نام پیدا کرنے اور اسے نمایاں مقام دلوانے میں ثمن رائے کا
ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے۔ حکومت کی نیک نامی بڑھانے کیلئے نت نئے آئیڈیاز
متعارف کروانے میں ثمن رائے کا کوئی ثانی نہیں۔ محکمہ کے افسران و دیگر
ملازمین کے مسائل خود ان سے دریافت کرتیں اور ان کے حل کیلئے جدوجہد کرتی
ہیں۔ ملاقات کیلئے آنے والے لوگوں کو بھی ثمن رائے تک آسان رسائی حاصل ہے۔
اسد الرحمن گیلانی کا شمار بھی ایک باادب اور ٹھہرے ہوئے لہجے والے
بیوروکریٹس میں ہوتا ہے۔ جس سے بھی ملتے ہیں عزت دیتے ہیں۔
دانش افضال اب تک جس محکمے میں بھی گئے، مسائل کے حل کیلئے انہوں نے خود کو
وقف کیا اور درخواست گزاروں کو اپنے تک بآسانی رسائی دی۔ دانش افضال ذاتی
دلچسپی لے کر درخواست گزاروں کے مسائل حل کرنے والوں میں سے ہیں۔
کاشف منظور ایک سادہ لوح، خوش مزاج، جانِ محفل اور انتہائی معاون بیوروکریٹ
ہیں۔ میں نے جب جب انہیں دیکھا، ان میں مستقل مزاجی و رحمدلی کا عنصر
نمایاں پایا اور لوگوں کے مسائل فوری حل کرنے کے معاملے میں ان کو ہمیشہ
متحرک دیکھا۔ کاشف منظور کہا کرتے ہیں کہ قدرت نے ہمیں لوگوں کیلئے آسانیاں
پیدا کرنے کیلئے چنا ہے تو ہم کیوں قدرت کے اس اعتماد پر پورا نہ اتریں؟
قدرت نے ہمیں معاشرے میں جو مقام اور عزت دی ہے اس کا تقاضہ یہی ہے کہ
لوگوں کے بھرپور کام آیا جائے۔
عائشہ ممتاز باصلاحیت خاتون بیوروکریٹس میں شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے بھی
پیشہ ورانہ طور پر اپنی صلاحیتیں وقف کیں اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات
اٹھائے۔ عائشہ ممتاز بارے میں نے مشاہدہ کیا کہ ذرائع ابلاغ والوں نے جب
بھی ان سے کسی انٹرویو کے سلسلے میں رابطہ کیا انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت
کی کہ پروفیشنل لائف کے دوران وہ انٹرویو دینے کی قائل نہیں ہیں۔ انہیں صرف
اپنے کام پر توجہ دینی ہے۔ وہ شخصیت پرستی کے خول سے باہر ہی رہنا پسند
کرتی ہیں۔
گو، کہ ان تمام افسران کا شمار مصروف ترین بیوروکریٹس میں ہوتا ہے۔ لیکن اس
کے باوجود اپنے پروفیشنل معاملات میں یہ سب ''ڈاؤن ٹو ارتھ'' ہیں۔ میں نے
کئی بار مذکورہ افسران کا تخیلاتی مشاہدہ اور موازنہ دیگر بیوروکریٹس کے
ساتھ کیا لیکن ان کو ''افسرانہ غرور''، بیوروکریٹک رویہ سے عاری اور سادگی
میں بھی اپنی مثال آپ پایا۔ بلاشبہ اس طرح کے اعلیٰ سرکاری افسران حکومتوں
کی بھی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ان تک عام آدمی کی رسائی ممکن
ہونا اور مسئلہ حل ہونا اس کے ذہن میں حکومت کا مثبت تاثر بٹھاتا ہے۔
یقیناً، ان جیسے افسران جس محکمے میں بھی جائیں گے اس کے ماتھے کا جھومر
ہوں گے۔
اس لمبی تمہید اور مثالوں کا مقصد فقط یہ ہے کہ بیوروکریسی میں ٹرانسفر
پوسٹنگ معمول کی بات ہے ۔ اگر ہماری بیوروکریسی ’’ورکرز کریسی‘‘ کو فروغ دے
تو متعلقہ اعلیٰ افسر کی ٹرانسفر کی صورت میں گذشتہ محکمہ اور سائلین اسے
اچھے الفاظ میں یاد کریں گے ۔ یعنی ہماری بیوروکریسی کو مذکورہ افسران جیسا
بننے کی ضرورت ہے۔ قدرت نے انہیں ملک اور عوام کی خدمت کا موقع دیا ہے،
لہذا ان کو چاہئے کہ اپنے مناصب سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے عام آدمی کیلئے
معاون اور سازگار ماحول پیدا کریں اور ان میں بیوروکریسی کا خوف ختم کریں
تاکہ ان کے بارے میں عوامی تاثر زائل اور عام رائے تبدیل ہو اور محکموں میں
آنے والے لوگوں کے مسائل بروقت حل ہوتے رہیں۔
|