مایوسی اور ناامیدی قوتِ فکر و عمل کو ختم کر دیتی ہے۔ ہم
میں سے بیشتر لوگوں کی ناکامیوں اور محرومیوں کی وجہ مایوسی اور ناامیدی
ہے۔ ہم جب کوئی کام اندیشوں کے سائے میں شروع کرتے ہیں تو ہمارا جذبۂ عمل
کمزور پڑنے لگتا ہے۔ نتیجہ، کامیابی ہم سے دور چلی جاتی ہے۔ مایوس اور
ناامید افراد کے درمیان رہنے والے لوگ بھی کبھی پر اعتماد اور کامیاب زندگی
نہیں گزار پاتے۔ مایوس اور ناامید افراد کی زبان پر گلے اور شکوے ہوتے ہیں،
رنجشیں ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس پرامید افراد کی زبان پر شکر ہوتا ہے، محسنین
کی تعریف ہوتی ہے۔ چیلنجز سے مقابلہ کرنے کا عزم ہوتا ہے۔
آج ہم میں سے بیشتر لوگ مایوس ہیں۔ مایوسی اور ناامیدی کی نوعیتیں مختلف
ہیں۔ والدین بچوں سے مایوس اور ناامید ہیں۔ بچے مایوس ہیں کہ والدین ان کی
خواہشات اور مطالبات کا تعاقب نہیں کرتے ہیں۔قوم قیادت سے مایوس ہے اور
قیادت قوم سے۔ اساتذہ طلبہ سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں اور طلبہ اساتذہ کا
گلہ کرتے ہیں۔ایک گھر کے افراد ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہیں ۔جس رشتے میں
جنم جنم ساتھ رہنے کی قسم کھائی جاتی ہے، وہ رشتہ بھی مایوسی اور ناامیدی
کی ڈور سے بندھا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے کب ٹوٹ جائے۔زیادہ تر زوجین
ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہیں۔
عدم اطمینان کی وجہ مایوسی اور ناامیدی ہی ہے۔ یعنی ہم افراد سے، حالات
سےبلکہ اپنے آپ سے مایوس اور ناامیدہوتے جا رہے ہیں۔مایوسی اور ناامیدی
یہی ہے کہ مسائل کے سامنے شکست تسلیم کر لی جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ آپ
جیسا چاہتے ہیں ویسا نہیں ہوگا یا آپ جیسا نتیجہ چاہتے تھے ویسا نتیجہ نظر
آتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا ہے، لہٰذا کوشش ترک کر دینی چاہیے۔یہی احساس
شکست، شکستِ ذات اور شکستِ کائنات کا سبب بنتا ہے۔
بندئہ مومن اگر حالات سے مایوس نہ ہو تو اسے سربلندی کی بشارت سنائی گئی
ہے۔ یہ بشارت بادشاہ کون و مکاں کی ہے، جس کے غلط ہونے کا تصور بھی کفر ہے۔
یعنی ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم امید اور یقین کے ساتھ کوئی کام کریں اور
ہماری محنت ضائع ہو جائے۔ پھر وہ بادشاہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم بندے کے گمان
کے مطابق ہوتے ہیں، یعنی غلام جیسا گمان رکھے گا، بادشاہ اس کے لیے ویسا ہی
ہو جائے گا۔ بس مسئلہ ہمارے گمان کا ہے۔ ہم نے پہلے سے فیصلہ کر رکھا ہے کہ
بچے باغی ہو رہے ہیں، قوم مردہ ہو چکی ہے، قیادت مفلوج ہو چکی ہے، طلبہ کے
اندر جذبۂ علم ختم ہو چکا ہے، اساتذہ اپنا فرض منصبی بھول چکے ہیں، رشتے
اور ناطے صرف کہنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ نتیجہ یہی ہے کہ ہمیں ہمارے گمان کے
مطابق باغی اولادیں عطا کی جا رہی ہیں، مفلوج قیادت دی جا رہی ہے۔ اساتذہ
کو اچھے طلبہ نہیں ملتے ہیں اور طلبہ گزرے ہوئے زمانے کے اساتذہ کا ذکر
کرتے ہوئے نوحہ کناں ہیں کہ "اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر"۔ ہم
رشتہ داروں کا گلہ کرتے رہتے ہیں اور رشتہ دار ہمارا۔ یہ سلسلہ ایک دوسرے
سے اتنا مربوط ہے کہ ہماری زیادہ تر گفتگو کا مرکز و محورگلہ اور شکوہ ہوتا
ہے، مایوسی اور ناامیدی ہوتی ہے۔حالات کا نوحہ ہوتا ہے۔
مایوسی اور ناامیدی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا میں جنت جیسا نظام
چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق ہو۔ والدین چاہتے
ہیں کہ بچے فرماں بردار ہوں، اولاد چاہتی ہے کہ والدین ان کی ہر خواہش پوری
کریں۔ اسی طرح سب کو سب سے توقعات ہیں اور جب توقعات ٹوٹتی ہیں تو انسان
مایوس ہونے لگتا ہے۔ اگر توقعات اور خواہشات فرد سے ہے تو انسان فرد سے
مایوس ہوتا ہے، جماعت سے ہے تو جماعت سے اس کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بڑا
صبر آزما مرحلہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خواہشات پر اختیار کل
صرف ذاتِ واحد کوحاصل ہے۔ وہ مالکِ کُن ہے۔ جو چاہے ، جب چاہے کرے۔ ہمارا
کام کوشش کرنا ہے۔ نتیجے کے مالک ہم نہیں ہیں۔ کوشش کے نتیجے میں کامیابی
ملتی ہے یا ناکامی۔ کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ کامیابی ملنے کی صورت میں
بندہ شکر ادا کرتا ہے۔ شکر ادا کرنے والوں کے لیے وعدہ ہے کہ بادشاہِ کون و
مکاں شکر کرنے والوں کو مزید دیتا ہے۔ ناکامی ملنے کی صورت میں بندہ صبر
کرتا ہے۔ صبر والوں کے لیے بھی وعدہ ہے کہ بادشاہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ اب
جسے بادشاہ کا ساتھ مل جائے اسے اور کون سی نعمت چاہیے۔ یعنی مومن بندے کے
لیے ہر حال میں خوش خبری ہے۔ کامیابی میں بھی اسی کا فائدہ ہے اور بظاہر
ناکام ہو کر بھی وہی سرخرو ہے۔ کربلا میں امام عالی مقامؑ کی بظاہر شکست ہو
گئی لیکن صبر کے نتیجے میں تاقیامت سرخروئی ان کے حصے میں آئی۔ فاتح مردود
اور ذلیل ہوا۔ مفتوح کے لیے تاقیامت شاہ است اور بادشاہ است کے نعرے گونجتے
رہیں گے.
کیا اتنی واضح مثالیں آپ کے سامنے ہوں، پھر بھی آپ مایوس ہوں گے؟ حالات
خواہ جیسے بھی ہوں آپ اپنے حصہ کی شمع تو اٹھائیں اس میں روشنی دینے کی
ذمہ داری جس نے لے رکھی ہے وہ آ پ کو مایوس کبھی نہیں کرے گا ؎
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
(امیر قزلباش)
|