ایمان و یقین اور فَتحِ مُبین

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفتح ، اٰیت 1 تا 9 ازاخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
انا
فتحنالک
فتحا مبینا 1
لیغفر لک اللہ ما
تقدم من ذنبک و ما
تاخر و یتم نعمتهٗ علیک
و یھدیک صراطا مستقیما 2
و ینصرک اللہ نصرا عزیزا 3 ھو الذی
انزل السکینة فی قلوب المؤمنین لیزدادوا
ایمانا مع ایمانہم و للہ جنود السمٰوٰت و الارض و
کان اللہ علیما حکیما 4 لیدخل المؤمنین و المؤمنٰت
جنٰت تجری من تحتہا النھٰر خٰلدین فیہا و یکفر عنھم
سیئاٰتھم و کان ذٰلک عند اللہ فوزا عظیما 5 و یعذب المنٰفقین
والمنٰفقٰت و المشرکین و المشرکٰت الظانین بااللہ ظن السوء علیھم
دائرة السوء و غضب اللہ علیھم و لعنہم و اعدلہم جھنم و ساءت مصیرا
6 و للہ جنود السمٰوٰت و الارض و کان اللہ عزیزا حکیما 7 انا ارسلنٰک شاھدا و
مبشرا و نزیرا 8 لتؤمنوا باللہ و رسولهٖ و تعزروہ و توقروہ و تسبحوہ بکرة و اصیلا 9
اے ہمارے رسُول ! ایمان و یقین کے جن حامل اور عزم و عمل کے جن عامل بندوں کو ہم کُھلی فتح دیتے ہیں آپ کو ہم نے وہی کُھلی فتح دی ہے تاکہ ہم آپ کے دل سے اَگلے پچھلے سارے بار اُتار کر آپ پر اپنی اَگلی پِچھلی تمام نعمتیں تمام کردیں اور ہم آپ کو تمام پُر خار راستوں سے بچا کر حق کے اُس پُر بہار راستے پر چلادیں جس کا نتیجہ انسانی نجات ہے اور ہم نے اسی لیۓ دشمنوں پر غلبہ پانے کے لیۓ آپ کی ایک غائبانہ مدد کی ہے اور اسی مدد کی بنا پر اہلِ ایمان کے دلوں میں ہم نے وہ راحت و تسکین پیدا کی ہے جس راحت و تسکین کی بنا پر اُن کو اطمینان کے بعد اطمینان مل رہا ہے اور اِس اطمینان دَر اطمینان کا سبب اللہ کے وہ بیشمار زمینی و آسمانی لشکر بھی ہیں جن لشکروں کے ذریعے وہ جب چاہتا ہے ، جہاں چاہتا ہے اور جس کی مدد کرنا چاہتا ہے اُس کی مدد کے لیۓ اُن لشکروں کو مُتحرک کر دیتا ہے اور وہ اپنی اِس رحمت و مہربانی سے اپنے بَھلے بندوں کے بَھلے مرد و زن کو اپنی اُس جنت آبی و انہاری جنت میں پُہنچانا چاہتا ہے جس میں خیر کے ساتھ شر کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہے اور وہ جنت اُن کی کامرانیوں میں سب سے بڑی کامرانی ہے اور جس طرح اللہ اپنے اِن خرد مند بندوں کو جزا دیتا ہے اسی طرح وہ منافق و مُشرک جماعت کے اُن شر پسند مرد و زن کو سزا بھی دیتا ہے جو اُس کے سعادت کار بندوں کے خلاف بغض رکھتے اور بد گمانیاں پھیلاتے ہیں اور اللہ اپنے جن بد کار بندوں کو دُھتکار پِھٹکار دیتا ہے تو اُن کو وہ اپنی اُسی جلتی اور جلاتی جہنم میں پُہنچا دیتا ہے جس کے وہ مُستحق ہوتے ہیں ، زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ آپ کو ہم نے اسی مقصد کے حصول کے لیۓ شہادت کار و بشارت کار اور مُعلّمِ انزار بنایا ہے اور اسی مقصد کے تحت اہلِ زمین کو حُکم دیا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لانے سے پہلے آپ پر بھی ایمان لا کر آپ کی نصرت و اعانت کریں ، آپ کو محبت و احترام دیں اور صبح و شام اللہ کا شُکر ادا کریں تاکہ اُن کو نارِ جہنم سے بچایا اور بہارِ جنت میں پُہنچایا جا سکے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا مرکزی موضوع فتحِ مکہ ہے جو اِس سُورت کے نام سے ہی ظاہر ہے اور اِس مرکزی موضوع کے مضامین میں جو دو بڑے ضمنی مضامین وارد ہوۓ ہیں اُن میں فتحِ مکہ کے بعد اُس کے شہری نظام کے قیام اور دُوسرا مضمون اُس فاتح تَنظیم کے تعارف پر مُشتمل ہے جس تنظیم نے اُس نظام کو پہلے مکے میں کامیابی کے ساتھ چلانا ہے اور اُس کے بعد اَطرافِ زمین میں بھی اُسی کامیابی کے ساتھ پھیلانا ہے ، اِس سُورت میں یہ مضامین اپنی اپنی جگہ پر یقیناً اُسی ترتیب کے ساتھ آئیں گے جس ترتیب کے ساتھ اِس سُورت کے متنِ اٰیات میں آۓ ہیں ، اِس سُورت کا مرکزی موضوع جو اِس سُورت کی اٰیاتِ بالا میں آیا ہے اور اٰیاتِ بالا کا جو مُختصر مفہوم اٰیاتِ بالا کے زیرِ متن تحریر کیۓ گۓ مفہوم میں واضح کیا گیا ہے اُس مفہوم میں فتحِ مکہ کے حوالے سے آنے والے { لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک و ما تاخر } کے الفاظ میں جو سبب بیان کیا گیا ہے اُس سبب میں ایک لفظ { ذنب } جو ضمیر حاضر { ک } کے ساتھ آیا ہے اہلِ روایت نے اُس لفظِ { ذنب } کا ترجمہ گناہ کیا ہے اور اُس کے ساتھ آنے والے ضمیر حاضر { ک } کے اشارے کا مشار الیہ نبی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کو قرار دیا ہے اِس لیۓ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اِس اَمر کا ایک مُختصر سا جائزہ لیتے ہیں کہ اِس لفظ کا مقصد یا مفہوم کیا ہے ، قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں سب سے پہلے یہ لفظ سُورَةُالمؤمن کی اٰیت 55 میں { استغفر لذنبک و سبح بحمد ربک بالعشی والابکار } کی صورت میں آیا ہے جبکہ دُوسری بار سُورَہِ مُحمد کی اٰیت 19 میں بھی { استغفر لذنبک و للمؤمنین و المؤمنٰت } کے الفاظ کے ساتھ آیا ہے اور تیسری بار اِس سُورت کی اٰیت 2 میں اُس حرفِ لام کے ساتھ { لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک و ما تاخر } کی صورت میں آیا ہے جس میں آنے والا یہ حرفِ لام ایک سبب کے طور پر آیا ہے ، پہلی اٰیت کے پہلے مقام پر اہلِ روایت نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ { تُو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اور صبح و شام اپنے رَب کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ } قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اہلِ روایت نے جب اِس کلام میں آنے والے پہلے لفظ کا معنٰی گناہ مُتعین کر دیا ہے تو بعد کے الفاظ سے خود بخود ہی یہ مفہوم بھی پیدا ہو گیا ہے کہ تیرے گناہ اتنے زیادہ ہیں کہ تُجھے صُبح و شام اللہ کی حمد و تسبیح کے ذریعے توبہ تِلا کرنے کی ضروت ہے { نعوذ باللہ من ذٰلک } دُوسرے مقام پر سُورَہِ محمد میں آنے والی اٰیت کے الفاظ کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ { اور تم معافی مانگو اپنے قصور کے لیۓ بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیۓ بھی { یعنی آپ کے گناہ وہ مُتعدی گناہ ہیں جو آپ کی ذات سے بڑھ کر آپ کی اتباع کرنے والوں تک بھی جاپُہنچے ہیں اِس لیۓ آپ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنی اُمت کے مردوں اور عورتوں کے گناہوں کے لیۓ بھی اللہ سے معافی مانگتے رہا کریں { نعوذ باللہ من ذٰلک } اور پھر سُورَةُ الفتح کے اِس تیسرے مقام پر اہلِ روایت نے اِس اٰیت کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ { ہم نے تُم کو کُھلی فتح عطا کردی تاکہ اللہ تمہاری اَگلی پچھلی ہر کوتاہی سے در گزر فرماۓ } پہلی اٰیت کے اُس پہلے ترجمے سے لے کر تیسری اٰیت کے اِس تیسرے ترجمے تک قُدرتی طور پر یہی ایک نتیجہ مُرتب ہوتا ہے کہ ہم نے آپ کو یہ فتح اِس لیۓ دی ہے تاکہ آپ اپنے اَگلے اور پچھلے گناہوں کی معافی تلافی کر سکیں اور یہ اتنا احمقانہ ترجمہ اور اُس کا مفہوم ہے کہ جس کا کوئی عقلی جواز ہی نہیں ہے اِس لیۓ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سفر سے تھک کر آنے والے کسی مسافر کو آرام کا کہا جاتا ہے تو اُس کا یہ سبب موجُود ہوتا ہے کہ وہ تھکا ہوا ہے ، جب شَب بھر بے آرام رہنے والے انسان کو سونے کے لیۓ کہا جاتا ہے تو اُس کا بھی یہی سبب ہوتا ہے کہ وہ رات بھر کا جاگا ہوا ہے اور ایک روزے دار کو افطار کے بعد جب کُچھ کھانے پینے کے لیۓ کہا جاتا ہے تو اُس کا بھی یہی سبب ہوتا ہے کہ وہ دن بھر بُھوکا پیاسا رہا ہے لیکن ایک فاتح جب اپنے شہر کو ناجائز قبضہ گیروں کے قبضے سے واگزار کراتا ہے تو اُس فاتحِ شہر کو مُبارک سلامت کا مُژدہ سنایا جاتا ہے جو اُس کی فتح کا ایک اعتراف ہوتا ہے لیکن اُس فاتح کو تو کوئی احمق بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ شہر تُم نے فتح کر لیا ہے تو تُم اَب اپنے اَگلے اور اپنے پچھلے گناہوں کی اللہ سے معافی مانگو اور اگر کوئی شخص اُس فاتح کو یہ بات کہتا ہے تو اُس کا مطلب اِس ایک بات کے سوا اور کُچھ بھی نہیں ہوتا کہ تُمہارا اِس شہر پر قبضے کے لیۓ منصوبہ بندی کرنا تُمہارا پہلا گناہ ہے ، اِس پر قابض ہونا تُمہارا دُوسرا گناہ ہے ، اِس کو فتح کرنا تُمہارا تیسرا گناہ ہے اور اِس شہر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیۓ اِس میں کوئی قابلِ عمل نظام قائم کرنا تُمہارا آخری گناہ ہے جس کے بعد تُم پر لازم ہو چکا ہے کہ تُم اپنے سارے پچھلے اور سارے اَگلے گناہوں کی اللہ سے معافی ما نگو اور ظاہر ہے کہ اِن اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو جو فتحِ مُبین دی ہے اُس فتحِ مبین کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے جو اہلِ روایت نے اپنے اِن تراجم و مفاہیم میں بیان کیا ہے ، قُرآنِ کریم نے اللہ تعالٰی کے دیگر انبیا و رُسل کے بارے میں بالعموم اور اُس کے آخری رسُول کے بارے میں بالخصوص اپنی اِس آخری کتاب میں جو اَحکام نازل کیۓ ہیں اُن اَحکام کو پڑھنے والا کوئی انسان اِن بیہودہ خیالات کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو اِن تراجم و مفاہیم سے سامنے آتے ہیں کیونکہ اگر اللہ تعالٰی کا نبی ہی گناہ گار ہو تو اُس کی دینی و اَخلاقی دعوت کا کوئ جواز ہی نہیں رہ جاتا اِس لیۓ اہلِ روایت نے اِن اٰیات کے اِن الفاظ کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ترجمہ بھی بیجا ہے اور اِس ترجمے سے جو مفہوم اخذ کیا ہے وہ مفہوم بھی نا روا ہے ، قُرآنِ کریم نے مُحوّلہ بالا تین اٰیات میں { ذَنب } کا جو لفظ استعمال کیا ہے اُس لفظ کے بہت سے لُغوی معنوں میں ایک معنٰی کسی جان دار یا بے جان چیز کا کسی جان دار یا بے جان چیز کی متابعت کرنا ، دُوسرا معنٰی اپنی کسی چیز کو پگڑی کے شَملے اور طُرے کی طرح بلند کرنا اور تیسرا معنٰی دُم دار ستارہ بھی ہوتا ہے لیکن اِس لفظ کا سب سے معروف اور متداول معنٰی کسی جان دار کی دُم سے کوئی نَمدا باندھنا ہے جس کی بنا پر اہلِ عرب اونٹ کی دُم کے ساتھ باندھی گئی اُس رَسی کو { الذناب } کہتے ہیں جو رَسی اِس مقصد کے لیۓ باندھی جاتی ہے کہ اگر وہ اُونٹ بہٹک کر اپنے قافلے سے دُور نکل جاۓ تو زمین پر اُس رَسی سے بننے والے نشان کے ذریعے اُس کو تلاش کر لییا جاۓ اور وہ رَسی چونکہ جگہ جگہ پر بار بار اٹکنے کی وجہ سے اُس اونٹ کے لیۓ ایک ذہنی بار بھی ہوتی ہے اِس لیۓ عربی اُسلوبِ کلام میں ذہن پر بار بننے والی دیگر چیزوں کو بھی ذنب اور ذناب وغیرہ کہا جاتا ہے ، یہ بات اگرچہ درست ہے کہ ذنب کا ایک دُور اَز کار معنٰی گناہ بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب اِس لفظ کے دیگر معلوم معنی موجُود ہیں تو اِس کا وہ دُور اَزکار مذموم معنٰی ڈھونڈ کر لانے کا کیا جواز ہے جس معنی کی وجہ سے نبی علیہ السلام کی توہین کا ایک مذموم اور مردُود پہلو نکلتا ہو !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558520 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More