اپنے بچے کو اپنا دوست بنا لیں ورنہ دشمن تو وہ بن ہی جائے گا… اپنے بچے کی عمر کے مطابق اس کی تربیت کے طریقے جانیں

image
 
پانچ سال تک آپ اپنے بچے کے ہیرو ہوتے ہیں۔ آپ کا ساتھ اس کے لئے کل کائنات کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ بس آپ کو دیکھنا چاہتا ہے ۔ پھر وہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے دس سال کو پہنچتا ہے۔ وہ آپ کی ہر بات مانتا ہے ۔ آپ نے حکم دیا اور اس نے بجا لانا ہے یہ آپ توقع کرتے ہیں کہ وہ آپ کا فرمانبردار ہو آپ جیسا اسے چاہیں وہ ویسا ہی ہو جائے۔ لیکن اس وقت سے اس کے پر پرزے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں اس کو اپنی پسند نا پسند سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے لیکن ہمارے دماغ میں وہ وہی کل کا چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔
 
پھر پندرہ سال کی عمر بچے اور والدین دونوں کے لئے بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ 15 سال کا ہونے سے پہلے پہلے آپ اسے اپنا دوست بنا لیں ورنہ دشمن تو وہ بن ہی جائے گا- آخر پندرہ سال کا ہونے پر ہمارا بچہ ہمارا دشمن کیوں بن جائے گا..؟...!!! ہر ماں باپ ماضی میں اس عمر سے گزرے ہوتے ہیں ان کو یاد ہوگا اس زمانے میں ماں باپ کی روک ٹوک کتنی بری لگتی ہے۔ جب ہم خود والدین بنتے ہیں تو پھر یہ حقیقت ہم پر کھلتی ہے۔ والدین اولاد کی بہتری کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں لیکن پھر بھی سب تو کامیاب والدین نہیں ہوتے۔
 
آپ کا بچہ پہلے پانچ سال سارے گھر کا لاڈلہ ہر ایک کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے آپ اسے بھرپور وقت دیتے ہیں اور وہ آپ کو بھرپور پیار دیتا ہے ماں باپ اس کی نظر میں دنیا کے سب سے مہربان بہادر، ذہین، دولت مند، انسان ہوتے ہیں پھر وہ اسکول جانا شروع ہوتا ہے گھر میں چھوٹا بہن بھائی آچکا ہوتا ہے آپ کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں پہلے بچے کو ملنے والا وقت تقسیم ہوجاتا ہے اسکول میں دوست بن جاتے ہیں وہ اس والدین کی پہلی والی محبت کو اپنے دوستوں اور اساتذہ میں تلاش کرتا ہے ۔
 
اس کی محبت کی فہرست میں والدین تیسرے چوتھے نمبر پر چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے پہلے اس کو آسمان پر چڑھا کر رکھا لیکن اس کا بہن بھائی آنے پر لازمی اس کا وقت اس بہن بھائی نے لے لیا اور اکثر اس دوسرے بچے کی وجہ سے اسے ڈانٹ ڈپٹ بھی سننی پڑتی ہے ۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کم و بیش ہر بچہ اس مرحلے سے گزرتا ہے سمجھدار بچے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور دوسرے ایک غصہ اپنے اندر رکھتے ہیں جو وہ ٹین ایج میں ظاہر کرتے ہیں ۔
 
image
 
پندرہ سال کا بچہ ماں باپ کی نصیحتیں سن سن کر مار پٹائی ڈانٹ کھا کھا کر بیزار ہو چکا ہوتا ہے اور اس عمر میں اکثر ٹین ایج بچے ماں باپ کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں اپنی آزادی کا دشمن اپنی خواہشات کا دشمن اپنے فرینڈز کا دشمن. ....!
 
 بیس سال کا ہونے پر ایک بار پھر ٹاپ ٹین کی لسٹ بدلتی ہے پہلے نمبر پر دوست پھر کوئی ٹیچر، فلم ٹی وی کا کوئی فنکار کرکٹر، فٹبال کا کوئی کھلاڑی آجاتا ہے ۔ والدین تو بس ان کی ضروریات پوری کرنے والے خادم ہوتے ہیں یہ جملہ سننے میں برا لگتا ہے لیکن موجودہ دور میں یہ ہی حالات ہیں ۔ایک بات نوٹ کر لیجیے یہ مسئلہ صرف آپ کا یعنی ہمارے وطن یا اس خطہ کا نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے ٹین ایج بچوں اور ان کے پیرنٹس کا ہے- اگر ہم مغرب میں بچوں اور پیرنٹس کے مسائل جان لیں تو ہمارے ہوش اڑ جائیں پھر یقین جانیں ہم اپنے بچوں کے صدقے واری جائیں!!!! کیونکہ ہمارے یہاں ابھی بھی مادیت پسندی اتنی نہیں ہے۔ فیملی ویلیوز ہیں جن کے مطابق بچے کی پرورش ہوتی ہے ۔ کم از کم ماں باپ کے ڈانٹنے پر بچہ پولیس کو نہیں بلا سکتا ۔
 
اس بات سے مطمئن ہوکر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہمیں اپنی پرورش کے طریقوں میں بہتری لانی ہوگی بچوں کے ساتھ تعلقات ان کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ روزبروز اصلاح کی کوشش کرنی ہو گی۔
 
image
 
چند آسان آسان ٹپس :
بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کے مسائل بھی بڑے ہوجاتے ہیں اس لئے اب ان سے عزت سے بات کریں ان ٹین ایج بچوں کو مکمل فرد سمجھیں دلیل سے بات کریں توجہ سے ان کی بات سنیں غصّہ کرنا چھوڑ دیں اس سے پہلے کہ بچے آپ سے بات کرنا چھوڑ دیں۔
 
 اس بات کو تسلیم کریں کہ دنیا کے ساری ٹین ایج بچے اس عمر میں ایسے ہی ہوتے ہیں ہم بھی کم و بیش ایسے ہی تھے ۔ بس یہ زمانہ الگ ہے بچے کو بتائیں کہ آپ بھی اس عمر میں ایسے ہی تھے تو بچہ آپ پر بھروسہ کر کہ اپنے ساتھ پیش آنے والی مشکلات کو شئیر کرے گا صرف اتنا کہیں کہ میں بھی ایسا ہی تھا بس پھر اس جملے کا جادو دیکھیں !!!!
 
حوصلہ افزائی کیجئے بچوں کی نہیں..! ان کے کام کی مثلاً آپ نے اچھے رزلٹس کے لئے جو مستقل مزاجی سے محنت کی ہے یہ بات قابل تعریف ہے۔ بالخصوص ماں بچے کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ ماؤں کو چاہئے بچہ جس چیز کی حوصلہ افزائی چاہتا ہے اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر بچے کو سنیں ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ نوٹ کیجئے کون سا کام آپ کے بچے خودبخود انتہائی محنت لگن اور ذمہ داری سے کرتے ہیں..؟ اس خوبی کی تعریف کیجئے ۔
 
بچہ سچ بولتا ہے، نماز کی پابندی کرتا ہے، وقت کی اہمیت کا احساس کرتا ہے تو جم کر بھرپور انداز میں اس کی حوصلہ افزائی کیجئے بچوں کی کامیابیوں کو منانا سیکھیں ۔ ہم کتنا خوش ہوتے ہیں جب ہمیں انفرادی اہمیت ملتی ہے ۔ایک وقت میں ایک بچے کے ساتھ لونگ ڈرائیو پر جائیں اس دوران آپ صرف سوال کیجئے نوے فیصد سے زیادہ وقت بچے کو بولنے دیں اپنے بولنے کے لئے صرف دس فیصد وقت رکھیں نصیحت نہیں سوال کریں۔ ذہن میں رکھیں یہ بچے اب بڑے ہو گئے ہیں ہو سکتا ہے یہ آپ کو کوئی اچھا مشورہ دے دیں کیونکہ اب ان میں بڑوں جیسی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پنپ رہی ہے۔
 
بچہ آپ کی بات سنجیدگی سے نا سنتا ہو تو خاندان کے کسی فرد یا ٹیچر جن سے وہ انسپائر ہو کی مدد لینی چاہیئے ان کے ذریعے حکمت کے ساتھ موٹیویٹ کیجئے ہر ایک ٹین ایج بچے کو ایڈوینچر اور تھرل کی طلب ہوتی ہے کچھ ایسے ایونٹ آرگنائز کیجئے جس میں بچوں کی یہ فطری طلب پوری ہوجائے مثلاً تیراکی، ھائکنگ، کشتی رانی، سائیکلنگ، گارڈننگ، ڈیزرٹ سفاری، کسی نا کسی آؤٹ ڈور کھیل کے لئے سامان مواقع اور اجازت فراہم کریں۔ کچھ نہیں تو دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی اجاذت دے دیں لیکن اس کے لئے اس کی کمپنی کا اچھا ہونا اہمیت رکھتا ہے۔
 
لڑکیوں کے مسائل تو کم پیچیدہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ قدرتی طور پر سمجھوتے کا مزاج رکھتی ہیں لیکن موجودہ دور میں دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکے بہت زیادہ ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں لڑکیاں ہر میدان میں ان سے آگے جا رہی ہیں کیونکہ ان کی مصروفیات صرف گھر تک محدود ہوتی ہیں اس لئے بیان کی گئی مشکلات زیادہ تر نوجوان لڑکوں سے متعلق ہے۔
 
لڑکوں کو آگے ایک خاندان کے سربراہ کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس لئے لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دینی چاہئے- لڑکیاں تو اپنے مسائل اپنی والدہ یا خاندان کی لڑکیوں سے شیئر کر لیتی ہیں لیکن لڑکے اظہار نہ کرنے کی عادت کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں امید ہے یہ تجاویز کارگر ثابت ہوں گی۔....... بے شک اچھی اولاد صدقہ جاریہ ہے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کو سیلیبریٹ کریں!!!!!
YOU MAY ALSO LIKE: