گھر میں کون تھا جو مارتا نہ تھا... ماں کی خاطر فوج کی نوکری چھوڑ دی مگر جو انعام ملا اس نے مثال قائم کر دی

image
 
یہ کہانی آرمی کے ایک سابق میجر کی ہے جس کا نام کلیم حیدر ہے جس کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا سوشل میڈیا پر شئیر ہونے والی اس کہانی کی اگرچہ سچائی جانچنے کا ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے- مگر اس کہانی میں چھپا سبق ہم سب کے لیے ایک ایسا سبق ہے جو ہماری زندگی تبدیل کر سکتا ہے-
 
کلیم حیدر کی پیدائش سے قبل کے حالات
کلیم حیدر نامی شخص کا یہ کہنا ہے کہ اس کی والدہ کی شادی اس کے نانا نے انتہائی کم عمری میں صرف اس لیے اس کے چچا زاد سے کروا دی کہ وہ بن ماں کی بچی کو نہیں سنبھال سکتا تھا-
 
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کو اس کے سسرال میں میکے اور سسرال دونوں کی محبت ملتی مگر کلیم حیدر کی والدہ کے لیے زندگی شادی کے بعد ایک اور امتحان بن گئی- شادی کے بعد شوہر اور سسرال والوں کے ظلم کے سبب شادی کے ابتدائی ڈيڑھ سالوں میں وہ روٹھ کر تین بار اپنے باپ کے گھر آکر بیٹھیں مگر ہر بار باپ نے اپنے بھائی کی منت سماجت کر کے کلیم کی ماں کو دوبارہ سسرال بھجوا دیا- مگر جب ڈيڑھ سال بعد کلیم حیدر کے نانا کا انتقال ہوا تو اس کی ماں سسرال والوں کے رحم و کرم پر ہو گئی-
 
اب صرف شوہر ہی نہیں بلکہ ساس اور نندیں بھی مار پیٹ کرنے لگیں یہاں تک کہ ایک دن جب کلیم حیدر کے والد کو جمعہ کی نماز کے لیے جانا تھا اور کلیم کی والدہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ان کے کپڑے استری نہ کر سکیں تو ان کے والد نے ان پر کپڑے دھونے کا ڈنڈہ اس بری طرح برسانا شروع کر دیا کہ ان کے کاندھوں کی ہڈی ٹوٹ گئی-
 
کاندھے کی ٹوٹی ہڈی مگر کام میں کوئی رعایت نہیں
کلیم حیدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہڈی ٹوٹنے کے باوجود ان کی ماں کو کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا بلکہ اگر وہ تکلیف کے سبب کوئی کام نہ کر سکتیں تو ان کو سخت سست کہا جاتا اور مارا جاتا تھا جس کی وجہ سے وہ اس ٹوٹی ہوئی ہڈی کے باوجود بھی سارے کام کرتی تھیں یہاں تک کہ اس ہڈی کے سبب بازو کا دوران خون بند ہو گیا اور ہاتھ مفلوج ہو کر سوکھ گیا اور لٹک گیا-
 
image
 
کلیم حیدر کی پیدائش
اب جب سسرال والوں نے دیکھا کہ کلیم کی ماں مفلوج بازو کے سبب ان کے کام نہیں رہی تو انہوں نے سات ماہ کے حمل کے باوجود کلیم حیدر کی ماں کو بدکردار قرار دے کر گھر سے نکال دیا- اس حالت میں جب کلیم حیدر کی ماں کے پاس کوئی پناہ گاہ نہ تھی تو ان کو گاؤں کی ایک دائی نے اپنے گھر میں پناہ دے دی لیکن جب کلیم حیدر کی پیدائش ہوئی تو ان کے ددھیال والوں نے اس کی ماں کو اور کلیم کو گاؤں سے بھی زبردستی نکال دیا-
 
ٹوٹے کاندھے اور نومولود بچے کا ساتھ
مفلوج بازو کے سبب کلیم حیدر کی ماں کے لیے اس کو گود میں اٹھانا بھی ممکن نہ تھا وہ اپنے بچے کو ایک کپڑے کی گٹھڑی میں باندھ کر کاندھے سے لٹکا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ آگئيں- جہاں پہلی رات ایک گوشت والے کے تخت تلے اس حالت میں گزاری کہ یہی ڈر تھا کہ کسی بھی وقت آوارہ کتے اس معصوم بچے کو گوشت کا لوتھڑا سمجھ کر حملہ نہ کر دیں-
 
گلے سڑے پھل کھا کر بچے کو دودھ پلانا
ان دنوں کلیم حیدر کی ماں کی واحد خوراک سبزی منڈی کے وہ گلے سڑے پھل ہوتے جو لوگ خراب سمجھ کر پھینک دیتے اور وہ انہی پھلوں کو کھا کر بچے کا پیٹ چھاتی سے نکلنے والے دودھ سے بھرتیں-
 
اسی دوران انہوں نے مارکیٹ کی کئی دکانوں میں صفائی کرنی بھی شروع کر دی مگر ایک کاندھے پر لٹکتے بچے اور مفلوج ہاتھ سے صفائی کرنا بہت مشکل کام تھا-
 
ایک ہاتھ سے جوتے گانٹھنے کا کام
صفائی کے کام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے کلیم کی ماں نے کچھ پیسے جمع کر کے ایک برش ، پالش اور جوتے گانٹھنے کا سامان لے لیا جوتوں کی مرمت کے دوران وہ ایک ہاتھ سے جوتا پکڑ کر اپنے منہ سے گانٹھ لگاتیں- اس منظر کو دیکھنے اور مذاق اڑانے کے لیۓ کچھ آوارہ صفت لڑکے اپنے جوتے کو جان بوجھ کر کیچڑ میں گرا دیتے اور صفائی کے لیے جوتے کلیم کی ماں کو دے دیتے-
 
تمام مشکلات کے باوجود کلیم کی تعلیم کا آغاز
ان تمام مسائل کے باوجود کلیم حیدر کی ماں نے کسی نہ کسی طرح سے امام مسجد اور دیگر معززین کی مدد سے ان کے والد کے شناختی کارڈ کی کاپی حاصل کر کے کلیم کا داخلہ ایک سرکاری اسکول میں کروا دیا- جہاں کے ایک محترم استاد نے اس ماں بیٹے کو رہنے کے لیے اپنے گھر کا ایک کمرہ رہائش کے لیے دے دیا جس کے بدلے میں کلیم حیدر کی ماں ان استاد کے گھر کے سارے کام خوشی خوشی کر لیا کرتی تھیں-
 
image
 
فوج میں بطور لیفٹنٹ بھرتی
تعلیم کی منازل طے کرتے ہوئے جب کلیم انٹر میں پہنچے تو ان کے استاد نے ان کو فوج میں اپلائی کرنے کا مشورہ دیا اور خوشقسمتی سے ان کی بھرتی آرمی میں بطور لیفٹنٹ ہو گئی جس کے بعد ان کے استاد نے اپنی بیٹی کی شادی بھی ان سے کروا دی-
 
ماں کو فالج ہونا اور نوکری کی ذمہ داری
زندگی ایک ڈگر پر رواں ہو گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ کلیم ترقی کی منازل طے کرتے کرتے کرنل کے عہدے تک پہنچ گئے- ان کے کام کے سبب ان کی سامنے ایک بہت روشن مستقبل تھا مگر اسی دوران ایک انٹلی جنس آپریشن کے دوران ان کو اپنی ماں کے فالج ہونے کی اطلاع ملی جس نے انہیں سخت بے چین کر دیا-
 
انہوں نے اس موقع پر ہر چیز سے زيادہ اپنی والدہ کی خدمت کو سمجھتے ہوئے نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا جس کی مخالفت ان کے ساتھیوں نے اور بیوی نے کی- بیوی نے یہ بھی یقین دلایا کہ وہ ان کی ماں کی ہر طرح خدمت کرے گی لیکن ان کے ضمیر نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ اس ماں کو کسی دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں جس نے انہیں اپنی معذوری کے باوجود ہر طرح کی محنت کر کے سنبھالا-
 
دن کے اٹھارہ گھنٹے ماں کی خدمت
کلیم حیدر کا یہ کہنا تھا کہ گزر بسر کے لیے انہوں نے ایک چھوٹا سا گاڑیوں کا شوروم شروع کر دیا جس کو نوکر سنبھالتے اور وہ خود دن کے اٹھارہ گھنٹے اپنی ماں کی خدمت میں گزارتے اور جب تک ان کی ماں زندہ رہیں انہوں نے اپنی یہی روٹین رکھی-
 
ماں کی دعاؤں کے ساتھ ترقی
ماں کی دعاؤں نے ان کے کاروبار کو اتنی ترقی دی کہ ان کا ایک چھوٹا شوروم ناروے کے سات شورومز میں تبدیل ہو گیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں بھی ایک انڈسٹری شروع کر دی-
 
نیک اولاد
اللہ نے کلیم حیدر کو دو بیٹوں ایک ایک بیٹی سے نوازہ بیٹے تعلیم کی تکمیل کے بعد ناروے میں کاروبار سنبھال رہے ہیں جب کہ بیٹی امریکہ میں زیر تعلیم ہے جس سے ملنے کے لیے جب اس دفعہ وہ امریکہ گئے تو وہاں بیٹی کے کہنے پر اولڈ ہوم بھی جانا ہوا- جہاں پر وہ اپنے اس فوجی دوست کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں ان کا وہ دوست بھی موجود تھا جس نے سختی سے ان کو نوکری چھوڑنے سے منع کیا تھا-
 
ان کے اس دوست کو اس کا بیٹا اولڈ ہوم میں یہ کہہ کر چھوڑ کر گیا تھا کہ یہ اگر مر جائيں تو ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر کے اس کو اطلاع دے دی جائے-
 
کہانی کا سبق
ماں کی دعا انسان کو فرش سے عرش پر پہنچا سکتی ہے لہٰذا جو لوگ آج اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں آنے والا وقت ان کو اس کا اجر نہ صرف دنیا میں دیتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے لیے بڑے انعام ہوتے ہیں-
 
Courtesy . Lt Col Amjad Qaisrani
YOU MAY ALSO LIKE: