|
|
نشہ کوئی بھی ہو انسان کے اعصاب کو اس حد تک متاثر کرتا
ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور اگر یہ نشہ اگر دولت
اور طاقت کا ہو تو انسان کو فرعون بنا ڈالتا ہے اور وہ نہ صرف خدائی کا
دعوی کر بیٹھتا ہے بلکہ لوگوں کی زندگی اور موت کو بھی اپنے ہاتھ میں لے
لیتا ہے- |
|
یتیم جزلان فاروق اور
ظالم حسنین |
25 مئی 2022 کا دن شائد دنیا کے بہت سارے لوگوں کے لیے
ایک عام سا دن ہو مگر جزلان کے دادا دادی کی زندگی کا تاریک ترین دن تھا-
جس دن ایک امیر باپ کے بگڑے ہوئے بیٹے حسنین نے اپنے بھائيوں احسان، فرحان
اور ایک دوست کے ساتھ مل کر دو ایسے انسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی جن کی
زندگی کا سہارا ان کے جوان بیٹے کی موت کے بعد نوجوان جزلان ہی تھا- |
|
اٹھارہ سالہ جزلان فاروق
کا قصور |
جزلان کے دادا کے مطابق جزلان آئی سی ایم اے میں اے سی
سی اے کا طالب علم تھا۔ امتحانات کی تیاری کے لیے اپنے دوست شاہ میر اور
مرتضی کے ساتھ کمبائن اسٹڈی کرتا تھا۔ |
|
کچھ دن تک یہ لوگ اسثڈی کے لیے جزلان کے گھر آتے رہے اور
اس کے بعد شاہ میر کے گھر کی باری تھی تو اس کے لیے کلاس لینے کے بعد ان سب
نے طارق روڈ پر دوپہر کا کھانا کھایا اور اس کے بعد شاہ میر کے گھر کی طرف
روانہ ہوئے- |
|
گاڑی جزلان ہی چلا رہا تھا اسی دوران ان کے قریب سے ایک
نوجوان ون ویلنگ کرتے ہوئے گزرا اس دوران اس کی ایک ٹرالے سے ٹکر ہوتے ہوتے
بچی- |
|
|
|
اس کے بعد ون ویلنگ کرنے والے نوجوان کی بائک سلپ ہو کر
جزلان کی گاڑی کے سامنے آکر گری جس پر گاڑی سے اتر کر جزلان نے حسنین نامی
اس نوجوان کو متنبہ کیا کہ اگر وہ اس کی گاڑی کے نیچے آجاتا تو اس حادثے کا
ذمہ دار تو سب ہی جزلان کو سمجھتے- |
|
غلطی ماننے کے بجائے
دولت اور طاقت کا جنون |
حسنین کو جزلان کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی بہت بری لگی
جس پر اس نے اسی وقت اپنے بھائی احسان اور فرحان کو فون کر کے بلا لیا جو
کہ اپنے دوست کے ہمراہ کچھ ہی دیر میں پہنچ گئے اور انہوں نے جزلان اور اس
کے دوستوں سے جھگڑا کرنے کی کوشش کی- |
|
جزلان فاروق کا جھگڑے سے
بچنے کی کوشش |
ان حالات میں جزلان نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے
ہوئے گاڑی کے رخ کو بحریہ ٹاؤن کے ایفل ٹاور سے موڑتے ہوئے دوسری طرف جانے
کی کوشش کی مگر حسنین اور اس کے بھائيوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا- |
|
جزلان کی دادی کے مطابق ظالموں نے گاڑی میں پیچھے سے
گولی چلائی گولی شاہ میر کے سر کو کھولتی ہوئی ڈرائيوئنگ سیٹ پر بیٹھے
جزلان کے سر میں پیوست ہو گئي اور اس کے سر سے خون نکلنا شروع ہو گیا- |
|
جزلان کے حادثے کی خبر
اور دادا دادی پر قیامت |
جزلان کو جب اس کے دوست آغا خان ہسپتال لے کر گئے تو
انہوں نے اسی دوران اس کے دادا دادی کو بھی واقعہ کی خبر دی- |
|
دادا دادی نے جزلان کی پرورش اس وقت سے کی تھی جب سے اس
کے والد کا بینائی جانے کے بعد ایک لفٹ حادثے میں اس کے والد کا انتقال ہو
گیا تھا اور جزلان کے علاوہ اس کا ایک چھوٹا بھائی اور بہن یتیم ہو گئے تھے- |
|
ایسے وقت میں دادا دادی نے ان بچوں کو پالا تھا اس وقت
جزلان کی عمر صرف گیارہ برس تھی اب جب کہ جزلان انیس برس کا کڑیل جوان تھا
تو ان کو محسوس ہوا تھا کہ جزلان ان کے بیٹے کے روپ میں دوبارہ سے ان کا
سہارہ بننے کے قابل ہو گیا ہے تو ظالموں نے ان کی بڑھاپے کی لاٹھی ان سے
چھین کر ان کی کمر توڑ کر رکھ دی- |
|
|
|
قاتلوں کی گرفتاری کافی
نہیں انصاف ملنا بھی ضروری ہے |
جزلان کی دادی کا یہ کہنا تھا کہ کراچی میں مہنگے امیر
زادوں کے ہاتھوں کسی نوجوان کا قتل یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور اگر جزلان کے
قاتلوں کو بھی گرفتار کرنے کے بعد کچھ لے دے کر چھوڑ دیا گیا تو ایسے بگڑے
امیر زادے ایسے ہی کئی اور گھر اجاڑتے رہیں گے- |
|
اس وجہ سے ان کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ ہے کہ
وہ اس کیس پر سو موٹو ایکشن لیں اور اس کیس کی نگرانی خود کریں تاکہ اس کے
قاتلوں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ ان کو سزائيں بھی دلوائی جا سکیں- |
|
حکام کی بے حسی |
اس موقع پر جزلان کے دادا کا یہ بھی گلہ تھا کہ ارباب
اقتدار میں سے کسی نے بھی یہ قیامت ٹوٹنے کے بعد ان سے رابطہ نہیں کیا اور
نہ ہی ان کو کسی قسم کی داد رسی کا یقین دلایا- اب تک حسنین اور اس کے والد
کو پولیس گرفتار کر چکی ہے البتہ دیگر تین افراد مفرور ہیں اور ان کی
گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے- |
|
یاد رہے کراچی کی سڑکوں پر اس سے قبل بھی شاہزیب خان ،
حمزہ احمد اور سلمان لاشاری جیسے کڑیل جوانوں کا خون بگڑے امیر زادوں کے
ہاتھوں بہہ چکا ہے اور ان میں سے کسی کے بھی قاتلوں کو سزا نہیں مل سکی ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ جزلان فاروق کے قاتل سزا پاتے ہیں یا انصاف کے نظام کی
سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں- |