قوم کا ہیرو مورڑو میر بحر اور مگرمچھ ۔۔۔ کراچی میں موجود ان 7 بھائیوں کی قبروں کی حقیقت کیا ہے؟

image
 
جدید کراچی کی بنیاد 1729 میں کلہوڑہ خاندان کے دور میں کولاچی جو گوٹھ کی بستی کے طور پر رکھی گئی تھی۔ یہ گاؤں گل بائی کے مقام پر تھا اور سمندر اس وقت گل بائی تک تھا گو اب پیچھے چلا گیا ہے۔ سمندر کے ساتھ آبادی کی وجہ سے ماہی گیری انکا پیشہ تھا۔ بہت سادہ مزاج لوگ انتہائی پرسکون زندگی گزار رہے تھے کہ جیسے ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔۔۔۔
 
 سمندر میں ان کے ساحل کے قریب ایک بھنور آیا اور وہ بھنور یہاں کا حصہ بن گیا۔ لوگوں نے اس بھنور کو " کلاچی جو کن " کا نام دیا۔ اس بھنور نے پتہ نہیں کتنی کشتیاں ہضم کیں۔ مشہور تھا کہ اس بھنور میں ایک مگرمچھ پھنسا ہوا تھا اور بھنور میں پھنسنے والے لوگ اس کا لقمہ اجل بنتے ہیں۔
 
کولاچی سے 60 میل دور ایک گاؤں سونمیانی تھا جہاں ایک مچھیرا اوپھائیو اپنے سات جوان بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک ہنستا بستا خاندان، اس کے 6 بیٹے تو مضبوط ساخت کے جوان تھے البتہ ساتواں سب سے چھوٹا مورڑو تھا جو سب سے زیادہ ذہین لیکن جسمانی طور پر معذور تھا ۔ اسی لئے وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ سمندر میں ماہی گیری کے لئے نہیں جا سکتا تھا اس دوران وہ ساحل پر بیٹھ کر جال بنتا تھا۔
 
image
 
روزانہ یہ چھ بھائی کام پر صبح فجر سے نکلتے اور مغرب سے پہلے لوٹتے۔ معمول کے مطابق ایک دن یہ بھائی سمندر اپنے کام پر نکلے اس دن موسم صحیح نہ ہونے کے باعث مورڑو نے منع بھی کیا کہ آج کام پر نہ جائیں لیکن وہ چلے گئے۔ پورا دن گزر گیا وہ واپس نہ آئے۔ سمندر پر موجود دوسری کشتیوں سے پتا چلا کہ بھائیوں کی کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے۔ پورا گاؤں افسردہ تھا اور مورڑو انتہائی غم وغصہ میں تھا اس نے اسی وقت اس سفاک مگرمچھ کو مارنے کی ٹھان لی وہ اس درندے سے گاؤں والوں کو بچانا چاہتا تھا۔
 
ذہین تو وہ تھا ہی اس نے اپنے گاؤں کے لوہار سے ایسا پنجرہ تیار کروایا جس کے دونوں کناروں کو کانٹوں اور چھریوں سے مزین کیا۔ وہ خود اس پنجرے میں بیٹھ گیا اور رسیوں سے باندھ کر پنجرہ لٹکایا گیا ۔ رسی کے دوسرے کنارے بیلوں کی سینگوں پر باندھے گئے جیسے ہی مگرمچھ نے مورڑو کو کھانے کے لئے منہ کھولا میر نے رسیاں ہلائیں تاکہ بیلوں کی سینگوں کو آگ لگا دی جائے اور وہ بھاگیں سب کچھ پر پلان کے مطابق ہو رہا تھا۔ مگرمچھ جال میں پھنس کر ساحل پر آگیا اور اس کو گاؤں والوں نے مار دیا۔ ان بھائیوں کی لاشیں مگرمچھ کے پیٹ کو چیر کر نکالی گئیں اور ان کی قبریں گل بائی چورنگی پر بنائی گئیں ۔
 
اس طرح یہ زمین اس خاندان کا قبرستان بن گئی۔ مورڑو کی بھی قبر وہیں موجود ہے اور جس کو آج بھی گل بائی چورنگی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں کے لوگ اس خاندان کے لئے بہت عقیدت رکھتے تھے کیونکہ مورڑو ان کا نجات دہندہ تھا۔ یہ جگہ آج بھی سات بھائیوں کی قبروں کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
 
image
 
اس کہانی کے مختلف ورژن ہیں لیکن قبروں سے اندازہ ہوتا ہے کچھ نہ کچھ تو حقیقت ہو گی چاہے رائی کے برابر ہی ہو۔ کچھ دنوں پہلے اس خاندان کا تذکرہ مرتضیٰ وہاب نے سائٹ ایریا کا نام مورڑو میر بہر رکھنے کے معاملے میں کیا تو سوچا کہ یہ کہانی شئیر کی جائے۔ جو کہ ایک دلچسپ کہانی ہے!!!!
 
YOU MAY ALSO LIKE: