جہیز لیا ہے تو نخرے بھی تو برداشت کرو۔۔۔ کیا ایسے لوگوں میں بیٹی دینی چاہیے جو جہیز کی ڈیمانڈ کریں؟

image
 
کاش ہم ایسے نہ ہوتے۔۔۔۔شادی کے اگلے دن بہو سوکر اٹھی تبھی ساس کی طنزیہ آواز سنائی دی صبح جلدی اٹھ جایا کرو ہم لوگ چھ بجے چائے پی لیتے ہیں. تمہاری یہ عادتیں ہم لوگ برداشت نہ کریں گے. اپنے نخرے اپنی ماں کے گھر چھوڑ کر آنے تھے. بہو اپنے کمرے میں گئی اور ایک لسٹ، ڈائری، پین اور خریدی ہوئی چیزوں کی کچھ رسیدیں لیکر واپس آئی اور کہا ساسو ماں یہ وہ لسٹ ہے جو شادی سے پہلے آپ لوگوں نے میرے گھر بھیجی تھی آپ ملا لیں کوئی چیز کم تو نہیں.
سمارٹ ٹی وی بیالیس انچ... ساٹھ ہزار.
فریج................................... پینتیس ہزار
واشنگ مشین آٹومیٹک .....................پچیس ہزار
اوون اور الیکٹرانک سامان........ ایک لاکھ اسی ہزار
صوفہ، ڈائننگ ٹیبل، ڈبل بیڈ................... ساڑھے تین لاکھ
نقد................................ پانچ لاکھ
یہ رہیں رسیدیں۔
 
ساس بولیں خرید کر اپنے گھر رکھنے کو تو نہیں کہا تھا تم لوگوں نے تو کہا تھا نکاح کے بعد جہیز پہنچ جائے گا۔۔۔ آئیں گی کب یہ چیزیں۔ بہو نے جواب دیا کہ جب آپ کا بیٹا یہ چیزیں میرے ماں باپ سے خریدنے کے قابل ہو جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں میں بھی نوکری کرتی ہوں۔ میرے ماں باپ نے مجھے اس قابل بنایا ہے کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں جلد ہی آپ کا بیٹا بھی اس قابل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔
 
جہیز برصغیر کی ثقافت ہے اسلام میں نہیں جو دلہن کی طرف سے دولہے کو دی جاتی ہے۔ البتہ اسلام میں مہر ہے جو دولہے کی طرف سے دلہن کو دینا ہے۔
 
لڑکی کے والدین اپنی قیمتی بیٹیاں دے دیتے ہیں پھر بھی دولہا والے جہیز کا مطالبہ کرتا ہے۔ دلہن کے والدین پر غیر ضروری بوجھ ڈالنا ناانصافی ہے۔ ان دنوں لڑکیاں اور لڑکے دونوں نوکریوں کرتے ہیں انہیں اپنی شادی کے اخراجات خود برداشت کرنے چاہئیں۔
 
شادی کو دلوں کا جوڑ ہونا چاہیے نہ کہ مالی لین دین ۔ خواہ مرد "دلہن کی قیمت" ادا کر رہا ہو یا عورت کا خاندان اپنی بیٹی کو لے جانے کے لیے مرد کو جہیز دے رہا ہو یہ سب لوگوں کی خرید و فروخت کے زمرے میں آتا ہے اور اسے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
 
اس خرابی کے ذمہ دار صرف دولہا والے ہی نہیں ہیں بلکہ کچھ اور بھی عوامل ہیں جو ہمارے معاشرے کی انتہائی قدامت پسندانہ سوچوں پر مشتمل ہیں جنھوں نے ہمیں جکڑا ہوا ہے۔
 
1۔ لڑکی کے والدین خود ذمہ دار:
سب سے پہلے تو جہیز کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کو آپ کیسے اپنی بیٹی دے سکتے ہیں۔ کیا ہم اپنی بیٹی کو ایسے خاندان میں دے دیں جو اس کی قیمت مانگتے ہوں؟ ۔ وہ خاندان جو دلہن کی قیمت کا مطالبہ کرتا ہے، کیا یہ یہیں تک بس کر دیں گے ،جی نہیں، یہ وہیں نہیں رکیں گے۔ اسکے بچے پیدا ہوں گے، ہر بچے کی پیدائش ایک اہم مطالبہ کے ساتھ منسلک ہوگی۔ بعض اوقات بیٹیاں بھی سسرال میں اپنی عزت بنانے کے لئے ماں باپ سے ڈیمانڈ کرتی ہیں۔ واقعی؟ کیا آپ نے اپنی بیٹی کی پرورش اس لئے کی تھی؟ وہ لڑکی جو آپ کے لیے کل کائنات ہے اس کو آپ نے ایک نا قدرے لوگوں کو سونپ دیا ہے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت اس کے سسرال والوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے دیں گے۔ آخر یہ کس قسم کا سودا ہے اپنی کل کائنات بھی دیں اور ساتھ قیمت بھی دیں ۔۔ زرا سوچئے!
 
image
 
بہتر ہے اگر آپ اس رقم کو اس کی تعلیم پر خرچ کریں، تاکہ وہ ایک خود اعتماد نوجوان عورت بن سکے جو اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے اور اپنے جیون ساتھی کے ساتھ برابر ی کے ساتھ رہے۔
 
2۔ لڑکی والے جو جہیز دینا چاہتے ہیں:
 وہ خاندان جو مالی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں اپنی زندگی آرام دہ گزاریں ۔ بے شک یہ ان کا حق ہے لیکن وہ پھر اس جہیز کا دکھاوا نہ کریں ۔ کیونکہ ان کا یہ دکھاوا معاشرے میں رہنے والے دوسرے لوگوں کے لئے بوجھ بن جاتا ہے۔ جو دینا ہے خاموشی سے دے دیں ۔ بس آپ کے بیٹی داماد جانتے ہوں۔
 
ویسے بہتر تو یہ ہو گا کہ اپنے داماد اور بیٹی کو اپنے کام کرنے دیں۔ جہیز پیدائشی حق نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اگر آپ کے پاس اس کے نام کی جائیداد ہے تو اسے صدقہ کر دیں۔ سخت الفاظ ہیں ناں۔۔۔ یہ ہے تو بہت مشکل کام تو پھر ٹھیک ہے اپنے داماد کو بتائیں کہ آپ نے ان دونوں کے لیے جہیز رکھا ہے جب تک کہ وہ ان چیزوں کو خریدنے کے قابل نہیں ہو جاتا۔ اندیشہ ہے کہ وہ آپ کے انتقال کا انتظار کریں گے کیونکہ کوئی بھی غیرت مند انسان آپ کی بیٹی سے جہیز کے لئے تو شادی نہیں کرے گا ( اگر آپ اپنی بیٹی کو واقعی جہیز دینا چاہتے ہیں تو آپ اسے بعد میں تحفے کے طور پر دے سکتے ہیں)۔ لیکن اس کو اس کی شادی کے ساتھ مت جوڑیں اپنے بچوں کو اپنے راستے پر چلنے دیں، بیٹا ہو یا بیٹی، انہیں بڑھنے کے لئے جاگیرداری کے نظام کی ضرورت نہیں۔ بچے کو ضرورت ہے اچھی تعلیم اور اچھی پرورش کی۔ معاشرے میں مثالیں قائم کریں تاکہ دوسرے اس کی پیروی کریں۔
 
 ذہن نشین کر لیں آپ کی بیٹی کو خریدا نہیں جا رہا اسے سسرال والے اپنے گھر میں اپنے خاندان کے ایک رکن کے طور پر، اپنے بیٹے کی بیوی کے طور پر، اپنی بہو کے طور پر خوش آمدید کر رہے ہیں بہتر ہے وہ اس کی موجودگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ فرنیچر، زیورات کے ایک سے زیادہ سیٹ، سونے کی گھڑیاں یا بریسلٹ و غیرہ اس کو عزت نہیں دلا سکتے۔ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ آپ کی بیٹی اچھی نہیں ہے؟ آپ کی بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا، اس لیے نہیں کہ آپ نے اس کی قیمت ادا کی ہے، بلکہ آپ کی بیٹی تو بہت عزت کی مستحق ہے لڑکے والوں نے آپ کی بیٹی کا انتخاب کیا ہے… اور بس! کوئی بھی سونے کے زیورات یا سکے انسان کی زندگی کی پیمائش نہیں کر سکتے!
 
3۔ لڑکی والے جو کہتے ہیں عزت کا سوال ہے:
پنجاب میں جہیز دینا اور لینا شادی کی تیاریوں کا حصہ ہے۔ وہ اس روایت کو توڑ نہیں سکتے۔ ہمارے رشتہ دار کیا کہیں گے؟ ٹھیک ہے، وہ بہت کچھ کہیں گے کیونکہ جہیز ایک عادت ہے۔ ایک بری عادت۔ ہمارے معاشرے پر لعنت، کیونکہ ہم بہت خود غرض ہیں یا چھٹکارا پانے سے بہت ڈرتے ہیں۔ جب آپ اپنی لڑکیوں کو پڑھنے، کالجوں میں داخلہ لینے موٹر سائیکل چلانے، کام کرنے اور معاشرے میں مردوں کے برابر محسوس کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، جب آپ انہیں ان کی زندگی کے انتخاب میں، یہاں تک کہ ان کی شادیوں میں بھی خود مختار رہنے دیتے ہیں، تو پھر کیوں؟ جب جہیز کی بات آتی ہے تو آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں؟ اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کو بتائیں کہ جہیز ایجنڈے میں نہیں ہے۔ کتنا اچھا ہو نوجوان جوڑے کی خوشیاں منائیں اور بابرکت مستقبل کی خواہش کریں!
 
image
 
اکثر لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ دولہا بھی تو مہر ادا کرتا ہے۔ مہر مرد اپنی بیوی کو تحفے کے طور پر ادا کرتا ہے جو صرف ایک عزت اور احترام کے طور پر ادا کیا جاتا ہے اور یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اس سے شادی کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور بغیر کسی ذمہ داری یا کوشش کے نکاح کے معاہدے میں داخل نہیں ہو رہا ہے۔ یہ اپنی بیوی کے لیے شوہر کے اخلاص کی نشاندہی کرتا ہے۔
 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لڑکی والوں کی بھی تو ڈیمانڈ ہوتی ہے لڑکا بہت اچھا کماتا ہو گھر، بنگلہ، گاڑی، بینک بیلنس سب ہو تاکہ ان کی بیٹی عیش سے رہے۔ ڈیمانڈ تو کسی صورت قبول نہیں ہے چاہے وہ لڑکی والوں کی ہو یا لڑکے والوں کی ان دونوں طریقوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ زندگی مادیت پسندی سے نہیں خوشحال بنتی ورنہ آج دنیا بھر کے امراء خوش باش زندگی گزار رہے ہوتے۔
 
غرض شادی کا معاہدہ یا نکاح نامہ صرف اتنا ہے کہ دو لوگ ایک انتہائی خوبصورت بندھن میں بندھ جاتے ہیں ساری عمر ساتھ دینے کے لئے جس میں انہی دونوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا ہے اور ایک دوسرے کا پردہ رکھنا ہے۔ آئیے اسے خالص رکھیں ایسی روایات سے سختی سے گریز کریں جو ہمیں کمزور کرتی ہیں جو یقیناً معاشرے پر ایک بوجھ ہیں۔ تبدیلی لانے والے بنیں !!!!
YOU MAY ALSO LIKE: