جزلان جیسے پھول

‎گزشتہ روز کراچی میں جزلان خان نامی طالب علم کے ہولناک قتل نے پورے ملک میں خوف و ہراس کی اک لہر دوڑا دی ہے - جزلان کے دادا اور دادی کی دردبھری سسکیوں کی گونج سننے والے کے دل دہلا دینے کو کافی ہیں۔ “اگر آپ ایک پودے کی عمر بھر آ ب یاری کریں اور کوئی اسے آپکی آنکھوں کے سامنے اسے قطع کر دے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی ؟” جب جزلان کے دادا نے یہ سوال سامعین سے پوچھا تو مجھ پر ایک عجب اضطرابی کیفیت طاری ہوگئ

‎میری نظر سامنے باغیچے میں ایک بڑھتے ہوئے سکھ چین کے نخل کی جانب اٹھی اور اگلے چند لمحات کے لیے سوالات کے ایک متجسس سلسلے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا- اگر کل کوئی اجنبی اس خوب صورت پودے کو میری آنکھوں کے سامنے قطع کر دے تو میرا ردِعمل کیا ہوگا؟ کیا جزلان کے دادا کی طرح میں بھی محض سسکیاں بھرتا اس کےوصال کو دل کا روگ بنا لوں گا یا پھر میرے اندر کا جوان بیدار ہوکر اُس بدبخت کا بھی وہی حال کرے گا جو اس نے میرے لخت جگر کا کیا ۔ کیا اس ملک کے محتسب، حاکم اور منصفین مجھے انصاف دے پائیں گے یا پھر میری داستان بھی ان بد نصیبوں کی سی ہوگی جو آج تک عدالتوں سے آنصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں؟

‎ جانے اس ملک میں جزلان فیصل جیسے کتنے وطن کے سپوتوں کو، محمد عرفان جیسے درندے موٹ کی آغوش میں دھکیل چکے ہیں، نہ جانے جزلان کے دادا جیسے کتنے شہریوں کی نظریں آج بھی ہمارے ناقص عدالتی نظام پر ٹکی ہوئی ہیں۔

‎لیکن معاملے کی تہہ تک دیکھا جائے تو سوال یہ ابھرثا ہے کہ بلآخر ہمارا فوجداری نظام انصاف اتنا ناقص کیوں ہے؟ کیوں شارخ جتوئی جیسی ملک دشمن عناصر احتساب کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، آج بھی ہماری سڑکوں پر کھلم کھلا دندناتے پھر رہے ہیں؟ کیوں غیرت کے نام پر بہنوں کا بے دردی سے قتل کرنے والے خونی، گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں؟ اور کیوں شاہزیب خان، قندیل بلوچ اور جزلان جیسے سینکڑوں ظلم و استبداد سے متاثر مظلومین اس ملک میں انصاف کو ترستے ہیں؟

‎شاہد اس مسئلے کا تھرو ڈائگنوسس (Thorough Diagnosis)کرنا اس کالم کی بس کی بات نہ ہو- لیکن ہمارے فوجداری نظام انصاف کا ایک پہلو جو اشد درستگی کا طلب گار ہے , قصاص و دیت کے قوانین پر مبنی ہے- جب ۱۹۷۹ میں گل حسن نامی شخص کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت سنائی گی تو ہماری عدالتِ بالا نے اس کی اپیل پر یہ فیصلہ سنایا کہ موجودہ قوانین جن میں دیت کی کوئی گنجائش نہ تھی شرعی طور پر غیر اسلامی ہیں۔ چنانچہ عدالت کے اس فیصلے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ۱۹۹۷ میں نوازشریف اور پارلیمان نے کرمنل لا اورڈیننس پاس کیا , جس نے راتوں رات ہمارا فوجداری نظام انصاف دگرگوں کردیا- قصاص و دیت قوانین کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان میں قتل (Manslaughter) اور قتلِ امد (Deliberate Murder) کی تفریق نہیں پائی جاتی- اسی لیے ارتقابِ جرم کرتے وقت قانون میں موجود سیفٹی ہاچٹ اپنے لیے (Safety Hatchet) سے بخوبی واقف ہوتے ہیں- علاوہ ازیں یہ قوانین امراء اور غربا کے لیے دوہرا معیار رکھتے ہیں- جہاں عام طور پر کسی بھی کرمنل ایکٹ کو ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے، ان قوانین کے باعث ارتکاب جرم
‎ ایک انفرادی حیثیت کا جرم بن جاتا ہے تبھی تو شارخ جتوئی جیسے وڈیرے ان نقائص کا بخوبی فائدہ اٹھا لیتے ہیں-

‎اگر جزلان جیسے سینکڑوں معصوموں کو عرفان جیسے ظالموں کے شکنجوں سے بچا کر حقیقی انصاف دلانا ہے تو ان قوانین میں ترمیم لانا اشد ضروری ہے، نہیں تو احتساب سے نہ امید ہوکر جزلان کے دادا بھی شاہزیب کے والد کی طرح بے ساختہ پکار اٹھیں گے:

‎کہاں ہے ارض و سماں کا مالک
‎جو چاہتوں کی رگیں کریدے
‎ہوس کی سرخی رخِ بشر کا
‎حسین غازہ بنی ہوئی ہے
‎کوئی مسیحا ادھر تو دیکھے
‎کوئی تو چارہ گری کو اترے۔
‎افق کا چہرہ لہو سے تر ہے
‎زمین جنازہ بنی ہوئی ہے
‎زمین جنازہ بنی ہوئی ہے
 

Asfand Yar Katchela
About the Author: Asfand Yar Katchela Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.