ٹیپو سلطان سے پرخاش کے معنیٰ کیا ہیں ؟

ہنومان چالیسا کی دھمکیوں کے درمیان ممبئی کے مالونی میں ٹیپو سلطان کے نام پر پارک منسوب کیے جانے کا اعلان ہوتے ہی نیا تنازع کھڑا ہو گیا۔ ان مخالفت کرنے والوں کو نہیں پتہ تھا کہ اورنگ زیب کی مانند مراٹھوں سے لڑنے کی خاطر ٹیپو سلطان مہاراشٹر نہیں آئے بلکہ مراٹھےمیسور گئے تھے ۔ انہوں نے بلایا بھی نہیں تھا اور اگر بلاتے تب بھی نہیں جانے کا متبادل تو موجود ہی تھا۔ اب اگر کوئی اپنی کمزوری کا احساس کیے بغیر کسی سے بھڑ جائے اور ہار کر لوٹے تو بھلا ہرانے والے کا کیا قصور ؟ ٹیپو سلطان کے مخالفین نہیں جانتے تھے کہ وہ 19ویں صدی میں ہندوستانیت کی شناخت کے ہیرو تھے۔ انہوں سلطان نے نہ صرف مراٹھوں بلکہ انگریزوں اور حیدرآباد کے نظام کی مشترکہ افواج کے خلاف بھی جنگ لڑی۔ وہ مسئلہ ہندو مسلم نہیں بلکہ غلامی اور آزادی کا تھا ۔ ویسے یہ ہندوتوانواز بھی انگریزوں کے باجگذاروں میں سے تھے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سرینگیری مٹھ پر مراٹھا راجہ رگھوناتھ راؤ پٹوردھن کی فوج نے حملہ کرکے تمام زیورات لوٹ لیےاور دیوی دیوتاؤں کی بے حرمتی بھی کی۔ اس کے جواب میں ٹیپو سلطان نے نہ صرف سرینگیری بلکہ ملکوٹ، کولور موکامبیکا مندروں کونہ صرف عطیہ اور دیگر زرو جواہر، زیورات دئیے بلکہ تحفظ بھی فراہم کیا۔ ٹیپو نے سرینگیری مٹھ کے سوامی کو ایک خط میں لکھا – ’جن لوگوں نے اس مقدس مقام کے ساتھ گناہ کیا ہے انہیں جلد ہی ان کی بداعمالیوں کی سزا ملے گی۔ گرووں کی دھوکہ دہی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا پورا خاندان برباد ہو جائے گا‘۔ اس احسان کو بھول کر فی زمانہ ٹیپو سلطان پر تنازع کھڑا کیا جارہا ہے مگر مٹھ کو تاراج کرنے والے مراٹھوں کے خلاف سیاسی نقصان کے سبب کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرتا ۔

ٹیپو سلطان نے چو نکہ مئی 1799 میں سری رنگا پٹنم میں اپنے قلعے کا دفاع کرتے ہوئے برطانوی فوج کے ساتھ لڑائی کے دوران جنگ آزادی میں شہادت پائی تھی اس لیے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سدارامیا کی قیادت والی کانگریس حکومت نے ایک سالانہ سرکاری پروگرام کی ابتداء کی لیکن 2015 سے ہی بی جے پی اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔ریاست میں 2019 کے اندر جب سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا پھر سے وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی حالت بہت خراب تھی۔ بی جے پی ہائی کمان انہیں عمر اور بدعنوانی کے سبب اس عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسمبلی میں پارٹی واضح اکثریت سے محروم تھی اور باہر سے ارکان کو خرید کر حکومت سازی کی گئی تھی۔ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی خاطر یدی یورپا نے سیکنڈری اسکولوں کی تاریخ کی کتاب سے ٹیپوسلطان کے باب کو ہٹانے کی بات کی تو اس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا۔

یدی یورپاّ اس سے پہلے تین بار وزیر اعلیٰ بنے مگر انہیں ٹیپو سلطان کا خیال نہیں آیا اس لیے کہ اس کی ضرورت نہیں تھی یا موقع نہیں ملاتھا لیکن آخری بار انہوں نے اپنا اصلی رنگ دکھا ہی دیا یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود ان کو ہائی کمان نے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا اور وہ روہانسے ہو کر رخصت ہوئے۔خیر آخری بار اقتدار میں آنے کےفوراً بعد ان کی بی جے پی سرکار نے ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کی تقریبات کو ختم کر کے ذرائع ابلاغ میں سنسنی پیدا کرنے کا کام کیا تھا۔ اس مخلافت کی وجہ تخت نشینی کے بعد ٹیپوسلطان نے اپنی رعایا کے نام جو پہلے سرکاری فرمان میں پوشیدہ ہے۔ اس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس بات کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ بلا تفریق مذہب وملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح کریں اور ان کی خوشحالی اورمعاشی و سیاسی ترقی کیلئے کوشاں رہیں نیز مسلمانوں کی دینی واخلاقی بنیاد پر اصلاح کیلئے خصوصی اقدامات کریں ۔

اس کے علاوہ ٹیپو نے انگریزوں کو ملک سے باہر کرنے کیلئے پورے ہندوستان کے لوگوں کو متحد کرنے اور اپنی سلطنت کےمظلوم و بے بس عوام کو جاگیرداروں اور زمینداروں کے ظلم و ستم سے نجات دلاکرعدل و انصاف کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کا عزم کیا ۔ ان کے ذریعہ کی جانے والی اصلاحات کی ضرب جن کے مفاد پر پڑی ان لوگوں نے بغاوت کردی اور ان سے نمٹنا پڑا ۔ ان واقعات کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے ۔ اس بات کو آندھرا پردیش کی حالیہ مثال سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ وہاں پر کونسیما ضلع کا نام نہیں بدلا گیا بلکہ اس میں صرف ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا اضافہ کیا گیا تو نام نہاد اونچی ذات کے لوگ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے رکن اسمبلی پوناڈا ستیش کے گھر میں آگ لگا دی۔ ان پر تشدد مظاہرین کے خلاف کارروائی کو کسی خاص فرقہ کی مخالفت قرار دے کر حکومت کو بدنام کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے۔

فی زمانہ دلتوں سے اس قدر نفرت پائی جاتی ہے ٹیپو سلطان نے زمانے میں ان کے حوصلے کس قدر بلند ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایسی باغی رعایا کو قابو میں کرنے کی خاطرجو سخت اقدامات کیے گئے بی جے پی ان کومرچ مسالہ لگا کر اچھا لتی ہے اور ٹیپو سلطان کو بدنام کرنے کی سعی کرتی ہے جبکہ خود یو اے پی اے اور بغاوت کا قوانین کا وہ اپنے مخالفین کے خلاف بےدریغ استعمال کرنے سے نہیں چوکتی ۔ تاریخ شاہد ہے کہ مالابار سے متصل کرناٹک کے علاقے میں پسماندہ خواتین کو کمر سے اوپر کپڑا پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ اس دور میں ان مظلوم عورتوں سے سینہ ڈھانپنے پر جرمانہ یا ٹیکس وصول کیا جاتا تھا ۔ ٹیپو سلطان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان علاقوں کو فتح کر کے خواتین پر ہونے والے مظالم کو ختم کردیا ۔ اس سے جو طبقات ان کو ذلیل کرکے اپنی بڑائی قائم رکھے ہوئے تھے اور اس عریانیت سے محظوظ ہوتے تھے ان کے مفادات پر ٹھیس پہنچی اور انہوں نے مخالفت کی ۔ ایک عادل حکمراں کے طور پر مساوات کی خاطر ٹیپو سلطان کو ان کی سرکوبی کرنی پڑی ۔

ٹیپو سلطان نے میسور کے قریب کالی دیوی کے مندر میں رائج انسانوں کی قربانی پر پابندی لگا دی۔ خواتین کو نذرانے کے طور پر پیش کرنے، ان کی خریدو فروخت ، عصمت فروشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال جیسی سماجی برائی بند کروا دی ۔ اس لیے ان کی مخالفت ہوئی ۔ اب کوئی اس خوبی کو عیب بناکر اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس کا کیا جائے؟ منگلورو کے ملائی علاقہ میں مسجد کی تعمیر کے دوران مندر کے انکشاف اور وہاں مذہبی رسومات کے مطالبے پر کمار سوامی نے کہا کہ یہ مذہبی رسومات نہیں بلکہ آر ایس ایس کے مرکز کیشو کرپا کے احکامات پر عمل در آمد ہے۔ انہوں نے اس رحجان کو قومی ترقی کے لیے نقصان دہ بتایا۔ کمار سوامی کے مطابق آئندہ دنوں میں ملک کے اندر امن و بھائی چارے کے خاتمے کا خطرہ ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر بی جے پی اس طرح کے مسائل اٹھا کر اپنے سیاسی حریفوں کو مشکل میں ڈالے گی تو وہ بھی اس کا جواب دیں گے کیونکہ مانڈیا ضلع ان کا گڑھ ہے۔

ٹیپو سلطان پر ’مودلا باگلو انجنیا سوامی مندر‘ کو توڑ کر مسجد اعلیٰ تعمیر کرنے کا الزام لگانے والوں کو آئینہ دکھانے کا وقت آگیا ہے ۔ ان کی شخصیت دائیں بازو کی تنظیموں کے آنکھوں کا کانٹا رہی ہے کیونکہ اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے کہ انہوں نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یہ فرقہ پرست فرنگیوں کے نمک خوار اوروفادار بنے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے احساسِ جرم کی پردہ پوشی کے لیے بی جے پی ٹیپو سلطان کا مسئلہ اٹھاتی رہتی ہے۔ اس فرقہ پرستانہ سیاست کی زد چونکہ براہِ راست جنتا دل (ایس) پر پڑتی ہے اس لیے دیوے گوڑا کے بیٹے اور سابق وزیر اعلیٰ کمارسوامی نے ہندووں کے اس دعویٰ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ کسی دیوی دیوتا نے خواب میں آکر اپنی اصلی جگہ بتا دی (جو عام طور پر کوئی مسجد ہوتی ہے) اس لیے وہاں مندر بنادیا جائے۔

کمار سوامی نے یہ اعتراف کیا کہ ٹیپو سلطان نے کئی ہندو مندروں کو زمین عطیہ دی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے سوال کیا کہ اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ وہ زمین مسلمانوں کی تھی تو کیا ہندو اس مندر کو لوٹا دیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ محض اپنی صفائی پیش کرنے کے بجائے اس طرح کے راست سوالات کیے جائیں ۔ ٹیپو سلطان نےسرینگیری کے بڑے پجاری کو ایک دلچسپ خط لکھا جو سنگھ پریوار پر بھی صادق آتا ہے۔ ٹیپو نے لکھا تھا ’’وہ لوگ جنھوں نے ایک مقدس مقام کے خلاف یہ گندہ اور بہیمانہ اقدام کیا ہے وہ یقینا اپنے اس گناہ کا خمیازہ بہت جلد اٹھائیں گے اور مزید لکھا کہ لوگ ظلم اور غلط کام ہنستے اور مسکراتے ہوئے کرتے ہیں اور نتائج کا خمیازہ روتے ہوئے بھگتتے ہیں‘‘۔ ٹیپو سلطان اور مندر کے پجاری کی خط وکتابت میسور کے تاریخی کتب خانہ میں موجود ہیں۔ سنگھ کے لوگوں کو چاہیے کہ تھوڑا وقت نکال کر اسے پڑھیں اور عبرت پکڑیں ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449960 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.