حوا کی بیٹی ہار گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاگیردارانہ نظام جیت گیا

کیا کوئی شخص آنسوﺅں کو الفاظ کا لباس پہنا سکتا ہے یا آتش کدہ حزن و غم کے شعلوں کو معرض تحریر میں لاسکتاہے؟کیا دل و جگر کے زخم چھیل کر صفحہ کاغذ پر پھیلائے جا سکتے ہیں یا پہلو چیر کر سینے کے داغ دکھائے جا سکتے ہیں ؟ ہو سکتاہے ان ناممکنات کو بھی سحر طرازی کے ذریعے سے حد امکان میں لایا جا سکے۔لیکن یہ ممکن نہیں کہ اشک باری سے ، چہرہ خراشی یا سینہ کوبی سے لاہور میں ہونے والے سانحہ کے ماتم کا حق اد ا ہوسکے۔ لاہور میں ایک بار پھر حوا کی بیٹی ہار گئی اور ظالم سماج اور جاگیردارانہ نظام جیت گیا ۔

ہم لوگ آئے روز عزت کی دھجیاں اڑتی اور معصوم عورتوں کو بےگناہ مارے جانے پر خالق حقیقی سے ملتا دیکھتے ہیں ۔15 may لاہور میں ہونے والا سانحہ جو برکت مارکیٹ بیوٹی پارلر میں ہوا خالا اور اس کی بھتیجی کو بڑے ظالمانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ اس واقعہ نے نم دیدہ کر کے رکھ دیا ۔ عرش و زمین کانپ اٹھے اور سورج نے آگ برسانا شروع کردی۔اور ابھی تک اس کے ملزم دندناتے پھر رہے ہیں۔ہماری پولیس پکڑنے میں ناکام ہے یا ناکام بن گئے ہیں۔ ایک عورت چار مہذب رشتوں میں جڑی ہوئی نظر آتی ہے کبھی ماں ، بہن ، بیٹی اور کبھی بیوی جو ہمیشہ اپنے خاوند کے ماتھے کی زینت ہوا کرتی ہے۔ میرا قلم شاید صحیح معنوں میں افسردہ دل کا حال بیان نہ کرسکے کیونکہ جب آپ کے اوپر نا امیدی اور مایوسی کے سائے منڈلا ہورہے ہوں تو پھر افسردہ دل کا حال قلم سے بیان کرنا مشکل ہو جاتاہے۔ میں نا امیدی اور مایوسی کی بات بھلا کیسے کر سکتا ہوں ۔ مگر 17 کروڑ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ آج تک عورت پر ظلم و ستم اور جبر کرنے والے ملزم با عزت بری ہوتے آرہے ہیں ۔ میں آپ کی توجہ اس واقعہ کو دلیل بنا کر مبذول کروانا چاہتا ہوں جواس مہذب معاشرہ کی بہن اور بیٹی کے ساتھ ہوا۔ مختاراں مائی جس کی حقیقت پوری قوم جانتی ہے اس کو درندوں کی طرح نوچا گیا میںمزید حالات و واقعات کوبیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا بس قارئین کی خدمت میں صرف اتنا بتاتا چلوں کہ جب مختاراںمائی کا کیس ہائیکورٹ نے مسترد کردیا تو وہ امید کے دیئے جلا ئے اور امید کی شمع کو ساتھ لے کر سپریم کورٹ میں پیش ہوئی اس احساس کے ساتھ کہ سپریم کورٹ اس گرتی سنبھلتی معاشرے کی بہن اور بیٹی کا ساتھ دے کر اس کے ملزمان کو تختہ دار تک لے جائے گی۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے انصاف تو دور کی بات سپریم کورٹ کی دیواروں نے بھی اس گرتی سنبھلتی عورت کو سہارا نہ دیا پھر سرگودہا کا واقعہ بھی کیا خوب یاد ہوگا آخر کار اس غریب گھر کی بیٹی جاگیردارانہ نظام کے آگے خاموش ہوگئی اور آخری سانس تک خدا سے اپنے انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے خدا کو پیاری ہوگئی۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے جسموں پر کھالیں تو بھیڑوں کی لیکن سینوں میں دل بھیڑیوں کا ہے۔ ہوس کے پجاری ان مردوں نے اپنی بھوکی آنکھوں کی تسکین کی خاطر عورت ذات کو کھلونا بنا کر رکھ دیاہے۔ ان کے خیال میں وہ مسلمان ہیں اسلام نے ان کو مکمل " آزادی " دی ہے یہ ان کی چرب زبانی ہے قارئین کی خدمت میں ایک بات باور کراتا چلوں کہ اگر اس طرح مست ملنگ بن کربیٹھے تماشہ دیکھتے رہے تو خدا نہ کرے کہ وہ دن آجائے کہ کسی کے گھر کی عزت بھی محفوظ نہ رہے بڑے ہی ظالمانہ اور جابرانہ انداز میں ان ظالموں نے ان کا سر تن سے جدا کر دیا ۔ میرے خیال میں تو ان کو انسان کہنا انسانیت کی تذلیل ہے۔ میر ی التجا ہے ان انسانی حقوق کی تنظیموں سے اور وویمن رائٹس کی تنظیموں سے کہ خدارا اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان نہتے لوگوں کو انصاف کے ترازو میں لے جائیں ۔ اور التماس چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے کہ وہ اس معاملہ میں خود ایکشن لیں اور ان جاگیرداروں اور ظالموں کی نرگٹ پر ہاتھ رکھ کر معصوم عورتوں پر زیادتی اور ظلم و جبر کا حساب صحیح معنوں میں 17 کروڑ عوام کی عدالت میں پیش کریں اور انہیں ایسے تختِ کردار تک پہنچائیں تا کہ ان معصوم رشتوں میں جڑی بہنوں اور ماﺅں اور بیٹیوں کا کل بچایا جاسکے۔ اور سوئی ہوئی حکومت کے دروازے پر ایک دستک دیتاہوں کہ خدارا اقتدار اور اختیارات سے بڑھ کر بھی ایک چیز ہوتی ہے وہ ہے عوام سے محبت اور ان کا احساس۔ آپ کیونکر بھول جاتے ہیں کہ آپکی اس شان و شوکت اور اقتدار کے پیچھے اس بچاری عوام کا ہاتھ ہے جو ہمیشہ امیدوں کی آس لگائے حکومت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر تکتے رہتے ہیں ہماری حکومت ان تمام حادثات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملزمان کو سزا کا مستحق ٹھہرائے اور ایسے لوگوں کیلے اسلامی قانون نافذ کریں تاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دی جا سکے اور امید کرتا ہوں کہ حکومت اور ہماری عدالتیں اِس معاملہ میں اپنا کردار ادا کریں گی اور عوامی حکومت ہونے کا ثبوت دے گی۔ ۔۔۔۔۔ورنہ
اے" پھول "سے چہروں ذرا اتنا تو بتا دو
تم زخم تو دیتے ہو دوا کیوں نہیں دیتے

خدا ہماری دھرتی کو ایے درندوں سے پاک کردے تاکہ ہمارے ملک کی بہنوں،ماؤں اور بیٹیوں کی عزت محفوظ رہیں اور تاکہ یہ معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی رنگ میں رنگا جا سکے۔۔۔آمین
Khalid Iqbal Asi
About the Author: Khalid Iqbal Asi Read More Articles by Khalid Iqbal Asi: 8 Articles with 6007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.