سچ بولنا تو آسان لیکن سچ سننا مشکل… ہم سچ بولنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اپنے بارے میں سچ سن کیوں نہیں سکتے؟

image
 
ڈاکٹر عذرا کے گھر ہر جمعہ بعد نماز درس کی محفل جمتی تھی یوں تو وہ میڈیکل ڈاکٹر تھیں لیکن اب دین کی تبلیغ کا بھی انھوں نے بیڑا ا ٹھا لیا تھا۔ وہ نیچر کے لحاظ سے تھوڑی منہ پھٹ تھیں ان کا کہنا تھا وہ لوگوں کی اصلاح کے لئے ان کی غلطیوں کی نشاندہی کر دیتی ہیں۔ ذہین ہونے کی وجہ سے مذہبی معاملات پر بھی دسترس حاصل تھی۔ زیادہ تر محفلوں میں وہ پردہ کرنے کے احکام کی پرچار کرتی تھیں۔ ایک دن کچھ اسی موضوع پر لیکچر دے رہی تھیں کہ انکی بیٹی انتہائی ماڈرن ڈریسنگ کے ساتھ کمرے میں اپنی امی سے کچھ پوچھنے آئی۔ اس کے جانے کے بعد ایک خاتون نے کھڑے ہو کر اعتراض کیا آپ ہمیں سکھا رہی ہیں اپنی بیٹی کے بارے میں سوچا۔ یہ سننا تھا ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی کہتی ہیں دین میں زبردستی نہیں ہے اور بعض چیزوں میں مروت اچھی ہوتی ہے۔۔۔۔ یہ تھا وہ سچ جو وہ دوسروں کو تو دکھاتی تھیں لیکن جب ان پر اعتراض ہوا تو انھیں اپنے معاملات میں مروت یاد آ گئی۔
 
اخلاق اور رویوں کی بد صورتی کا احساس ہمیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ ہمارے ساتھ نہ برتے جائیں۔ اچھا سوچیں اور اچھا بولیں کیونکہ بد زبانی ایسا عیب ہے جو درست بات کو بھی غلط رخ پر لے جاتا ہے۔
 
image
 
اکثر لوگ ہمارے آس پاس ایسے ہوتے جنہیں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ دل میں نہیں رکھتے اسی لئے منہ پر بول دیتے ہیں اور وہ دل کے صاف ہیں۔ وہ اپنی اس عادت کو اپنی بہادری سے جوڑتے ہیں ان کے خیال میں جو لوگ منہ پر نہ ٹوک سکیں وہ بزدل ہوتے ہیں۔ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا یہ عمل کسی کی دل آزاری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ بزرگوں کی بڑی اچھی کہاوت ہے پہلے تولو پھر بولو،بعض جگہوں پر مروت سے کام لے لیا جائے تو بہتر ہے کمال تو یہ ہے کہ جہاں کسی فتنہ ،فساد یا دل آزاری کا اندیشہ ہو تو اپنیزذبان کو قابو میں رکھا جائے۔ کمال تو یہ ہی ہے کہ آپ کے بارے میں جب کوئی سچ بولا جا رہا ہو چاہے وہ کتنا کڑوا ہو وہ آپ سن کر برداشت کر لیں اور پھر اپنے اس عمل کی اصلاح کی کوشش کریں- ایسا کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ۔۔۔جب ہم کسی بات پر صبر کر لیتے ہیں تو ہم اپنا کیس اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتے ہیں۔
 
میٹھی زبان رکھنے والے لوگوں کو لوگ دوست رکھنا چاہتے ہیں لیکن بعض لوگ میٹھی چھری کا بھی کام کرتے ہیں۔ اس میٹھی زبان کے پیچھے منافقت چھپی ہوتی ہے۔ اگر کوئی آپ کی بلاوجہ تعریف کر رہا ہو (ہم اپنے اندر موجود خصوصیات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں) تو یہ جھوٹی تعریفیں جن سے آپ وقتی طور پر تو خوش ہو سکتے ہیں لیکن یہ کچھ عرصے بعد آپ کے گلے پڑ سکتی ہیں- آپ کی کوئی بات جو مکھن بازی کے دوران آپ کے نام نہاد دوست کو پتا چل چکی ہو وہ آپ کی برائی کے طور پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتی ہے یا کسی طرح آپکی سبکی کا سبب بن سکتی ہے۔
 
image
 
ہمیں کسی بھی شخص پر فوراً بھروسہ کر کے اسے اپنے ذاتی معاملات میں شامل نہیں کرنا چاہئے بلکہ پہلے پرکھ لینا چاہئے کہ آیا وہ شخص آپ کے ساتھ مخلص ہے کہ نہیں۔ تجربہ انسان کو سب کچھ سکھا دیتا ہے۔ لوگوں کو اپنے تجربے کی بنیاد پر پرکھیں اور خود بھی اپنے اندر وہ ہی خصوصیات پیدا کریں جن کو آپ دوسروں میں تلاش کر رہے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: