ماں جی کی جدائی کا مہینہ

اس میں شک نہیں کہ ماں کی بے لوث محبت زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں ٹھنڈک ہی ٹھنڈک اور سکون ہی سکون ملتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسان کو معمولی سی تکلیف پہنچتی ہے تو زبان سے بے ساختہ ماں کا لفظ ہی ادا ہوتا ہے ۔ 10 جون 2007ء میری زندگی میں اس لیے اہم ہے کہ اس دن ماں جی ہمیں چھوڑ کر دوسرے جہان میں جا بسیں ۔ اپنی ماں جی کی محبت کے اظہار کے لیے مجھے الفاظ نہیں مل رہے لیکن یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جن دنوں بنک آف پنجاب کا ہیڈ آفس ایجرٹن روڈ شملہ پہاڑی کے قریب واقع تھا تو چھٹی کے بعد میں روزانہ ماں جی کے گھر جاتا تھا ،ماں جی کو اس بات کا علم تھا کہ شام کے کھانے میں مجھے کیا کیا پسند ہے ، اس لیے میرے پہنچنے سے پہلے کبھی قیمہ کریلے تو کبھی گوشت بھنڈیاں پکائی ہوتیں ، کبھی سرسوں کا ساگ تو کبھی کڑھی پکوڑے پکا ئے جاتے۔ والدہ کو اس بات کا بھی علم تھا مجھے تندور کی تازہ اور گرم گرم روٹیاں بھی اچھی لگتی ہیں ۔اس لیے انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں بطور خاص مٹی کا تندور لگوالیا تھا جس پر میری چھوٹی بھابھی تازہ روٹیاں لگاتیں ،گرمیوں کے دنوں میں کشادہ صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر کے جہازی پنکھا ایک طرف لگا دیا جاتا جس کی ہوا پورے صحن میں پھیل جاتی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بے ساختہ میری زبان پر حضرت شاہ حسین ؒ کی کافی کے بول "مائیں نی میں کینوں آکھا ں۔۔۔درد وچھوڑے دا حال نی "۔ ہوتے ۔میری آواز سنتے ماں جی اپنی چارپائی پر اٹھ کے بیٹھ جاتیں ان کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ۔اوروہ فرماتیں، میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں مجھے اپنے دل کا حال بتا بیٹا ۔میں چارپائی کے اس جانب بیٹھ جاتا جہاں ماں جی کے پاؤں ہوتے۔ چند لمحوں بعد میرا پسندیدہ کھانا میرے اور ماں جی کے درمیان سج جاتا ۔ ماں جی کو نمک کے بغیر سالن اچھا نہیں لگتا تھا ،حالانکہ ان کا بلڈ پریشر ہمیشہ رہتا ۔ ڈاکٹر نے نمک کا استعمال سختی سے بند کررکھا تھا، میں بھی کوشش کرتا تھا کہ ماں جی سالن میں نمک نہ ڈالیں ، ایک دن جب ہم دونوں ماں بیٹا کھانا کھا رہے تھے تو میری توجہ اچانک کسی اورجانب ہوگئی ،اسی لمحے ماں جی نے اپنے پہلو کے نیچے چھپائی ہوئی نمک دانی سے چٹکی بھری اور سالن میں ڈال لی۔میں نے دیکھ کر کہا ماں جی یہ نمک آپ کی جان کا دشمن ہے اس کے بغیر ہی کھانا کھا لیا کریں ۔انہوں نے دھیمی لہجے میں کہا بیٹا نمک کے بغیرمجھے سالن اچھا نہیں لگتا۔کچھ دنوں بعد ماں جی کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئی ،معالجین کو چیک کروایا تو پتہ چلا ان کے پتے میں پتھری ہے ،اس کا حل صرف آپریشن ہے۔ماں جی آپریشن کے لفظ ہی سے الرجک تھیں ۔ایک دن مجھے کسی نے بتایا کہ سائفن کے قریب کوئی اﷲ کا نیک بندہ رہتاہے وہ گردوں کی بیماری کا شافی علاج کرتا ہے، ہسپتالوں سے اٹھ کر لوگ وہاں جاتے ہیں اور صحت یاب ہوکر واپس لوٹتے ہیں ، میں بھی شفا کی امید لیے ماں جی کو اپنی بائیک پر بٹھا کر گھر سے 45کلومیٹر دور کالاخطائی روڈ پر لبانوالا گاؤں جا پہنچا ۔ بابا جی نے کچھ دوائی ملا پانی وہاں پلایا اور کچھ گھر میں پینے کے لیے دے دیا ۔ مجھے وہاں دو تین مرتبہ وہاں جانا پڑا لیکن خوشی کی بات تو یہ ہے کہ پتھری کی تکلیف وقتی طور پر رفع ہوگئی ۔سال مہینے گزرتے چلے گئے اور ہم اس بیماری کویکسر بھول گئے تھے کہ 10 جون 2007 ء کی صبح ہی ان کی طبیعت خراب ہوگئی ،ہم انہیں سروسز ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے ،وہاں بروقت علاج سے ان کی حالت بہتر ہو گئی۔اس دن کہر کی گرمی پڑی رہی تھی ،یوں محسوس ہورہا تھا جیسے سورج آگ برسا رہا ہو ، سڑکوں سے اس قدر تپش نکل رہی تھی کہ جسم کو جھلسا رہی تھی۔میں کھاناکھانے گھر پہنچا تو موبائل کی گھنٹی بجی ۔دوسری طرف میرا بیٹا شاہد بول رہا تھا اس نے بتایا ابو جی دادی فوت ہوگئی ہیں ہیں ۔یہ سنتے ہی موبائل میرے ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور میں زمین پر گرپڑا ۔ بیگم نے مجھے سنبھالا اور کہا اگر آپ ہی حوصلہ ہار جاؤ گئے تو ماں جی کی تدفین کا انتظام کون کرے گا۔نماز جنازہ کا وقت رات دس بجے رکھا گیا۔پسینہ آبشار کی طرح سر سے پاؤں تک مسلسل بہہ رہا تھا۔ نماز عشا کی ادائیگی کے لیے جب میں قریبی مسجد پہنچا تو سجدے میں سر رکھ کر بہت رویا اور میں نے اپنی بخشش کے لیے سوا لاکھ کلمہ طیبہ جو پڑھ کے رکھا تھا وہ اپنی ماں جی کے سفرآخرت کے لیے رب کے حضور پیش کردیا۔نماز سے فارغ ہوکر جب میں گھر پہنچا تو ماں کے چہر ے پر اتنی مسکراہٹ دیکھی جیسے جنت میں انہیں اپنا مقام نظرآ گیا ہو۔تدفین کے بعد رات گیارہ بجے میں نے اپنے دونوں ہاتھ ماں جی کی قبر پر رکھے اور دعا کی ۔اے باری تعالی جیسے ہر صبح گھر سے نکلتے وقت ماں جی مجھے تیرے سپرد کرتی تھی اور تو میری حفاظت کرتا تھا اسی طرح میں اپنی پیاری ماں کو تیرے سپرد کرکے جا رہا ہوں تو ہی میری ماں کی حفاظت کرنا۔ماں جی جسمانی طورپر مجھ سے الگ تو ہوگئیں لیکن ہر دوسرے تیسرے دن وہ مجھے خواب میں ضرور ملتی ہیں۔یہ مجھ پر اﷲ کا کرم ہی سمجھیں یا ماں جی کی دعائیں۔


 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785053 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.