ماں باپ کا اکلوتا بیٹا، پاکستان کی محبت سے سرشار مگر اس کو ایسی سزا ملی جس نے ہم سب کے سر شرم سے جھکا دیے

image
 
کچھ دکھ قیامت جیسے ہوتے ہیں انسان کی زندگی کو پلٹ کر رکھ دیتے ہیں حالانکہ یہ ہم سب کا ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زيادہ نہیں آزماتا ہے مگر اس کے باوجود کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جن کی شدت انسان کی سانس تک روک دیتی ہے-
 
ایسا ہی ایک دکھ جوان اولاد کی بے وقت موت کا دکھ ہوتا ہے۔ اس دکھ کی شدت بوڑھے ماں باپ کے کمزور کاندھے مزيد جھکا دیتی ہے اور اگر اولاد جوان ہونے کے ساتھ ساتھ اکلوتی بھی ہو تو اس کی جدائی کی خلش صرف والدین کو ہی نہیں ہر نرم دل انسان کو اشکبار کر دیتی ہے-
 
والدین کا اکلوتا بیٹا قاسم
اسلام آباد جو کہ ملک کا دارالحکومت بھی ہے اور اس کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں پر امن عامہ کی صورتحال ملک کے کسی بھی حصے سے بہتر قرار دی جاتی ہے مگر گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے علاقے ایف 9 میں نوجوان قاسم جو فوڈ پانڈا میں بطور مینیجر کام کر رہا تھا اسکو مسلحہ ڈکیتی پر مزاحمت کے سبب ڈاکو گولی مار گئے-
 
image
 
دو دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد کل قاسم کی موت واقع ہو گئی- قاسم کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ صف اول کی یونی ورسٹی لمس سے گریجویٹ تھا اس کے بیج کے باقی تمام لڑکے اعلیٰ نوکریوں کے حصول کا مزید تعلیم کے لیے ملک چھوڑ کر جا چکے تھے مگر قاسم اسی ملک میں رہ کر اس کی خدمت کرنا چاہتا تھا اس وجہ سے اس نے انکار کر دیا-
 
قاسم کی موت کا ایک اور دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا جس کی موت نے اس کے بوڑھے والدین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ قاسم کی جواں موت ان تمام سیاست دانوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے جو اپنی اولادیں تو ملک سے باہر بھیج چکے ہیں لیکن ملک کے حالات اس حد تک بگاڑ رہے ہیں جہاں قاسم جیسے نوجوان محفوظ نہیں ہیں اور آئے دن ان کی ہلاکتوں کی خبریں آرہی ہیں-
 
ڈکیتی کے دوران قتل کے واقعات کا سبب
جس طرح ملک میں مہنگائی ایک طوفان کی طرح پھیل رہی ہے اس نے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو اور ان کے درمیان موجود فاصلوں کو بہت بڑھا دیا ہے امیر ہر آنے والے روز امیر تر اور غریب ہر نئے دن کے ساتھ غریب ترین ہوتا جا رہا ہے-
 
یہ معاشی نا ہمواری ایک جانب تو غریب کی زندگی کو تمام تر محنت کے باوجود دشوار کر رہے ہیں وہیں کچھ نئی نسل کے لڑکوں میں یہ سوچ بھی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں کہ جو نہ ملے اسے چھین لو- یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اسٹریٹ کرائمز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے-
 
image
 
اس کے علاوہ کچھ لوگوں میں یہ سوچ بھی پیدا ہو رہی ہے کہ ان کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے اس میں بلواسطہ طور پر امیر افراد ملوث ہیں اس وجہ سے انہیں قاسم جیسے کامیاب نوجوان غاصب نظر آتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو جڑ سے ختم کر دیں- یہی وجہ ہے کہ معمولی مزاحمت پر بھی اب نوبت جان لینے تک آرہی ہے جیسے کہ گزشتہ ہفتے کراچی میں بھی ایک نوجوان کو ڈيفنس میں ڈکیتی کی مزاحمت کے سبب گولی مار دی گئی اور وہ اب تک وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے-
 
اسٹریٹ کرائم روکنے کے لیے ارباب اقتدار کی ذمہ داری
دنیا کے ہر حصے میں جرائم کی روک تھام کی ذمہ داری حکومت کے سر ہوتی ہے جو پولیس کے ذریعے اس پرعمل درآمد کرواتی ہے- لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں صورتحال مختلف ہے جو گرفتار ہو بھی جاتے ہیں ناکافی ثبوتوں کے باعث آزاد ہو جاتے ہیں- اس لیے اگر امن عامہ کی صورتحال کو بہتر کرنا ہے تو سب سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صورتحال کو بہتر بنانا ضروری ہے- اس کے علاوہ ایسے اقدامات کرنے بھی ضروری ہیں جو معاشرے کے نوجوانوں کی بے چینی کا خاتمہ کر کے ان کوحلال روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں-
YOU MAY ALSO LIKE: