دی مال

نو آ بادیاتی نظام کی ابتدا میں انگریز جہاں بھی گئے چاہے وہ کوئی شہر تھا یا کوئی ہل سٹیشن، انہوں نے اپنی سہولت کے لئے ایک ایسا بازار بنوایا یا کسی سڑک کو ترقی دی کہ جہاں وہ اپنا فارغ وقت اچھی طرح گزار سکیں۔ اس بازار میں بہترین دکانیں، شاندار کھانے پینے کے ریسٹورنٹ اور چہل پہل کی سہولتیں مہیا کی گئیں۔اس بازار کو ہر جگہ دی مال " The Mall" کا نام دیا گیا۔لاہور میں انگریزوں کی آمد کے وقت انارکلی اور اس سے ملحقہ تمام علاقہ فوجیوں کی آماجگاہ تھا۔حالیہ پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج دونوں کی ابتدا انہی خالی کردہ بیرکو ں میں ہوئی۔ یکم جنوری4 186کو گورنمنٹ کالج اندرون شہرحویلی دھیان سنگھ میں قائم کیا گیا اور جی ڈبلیو لائٹر (G.W Leitner) کو اس کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ بعد میں یہ کالج موجودہ جگہ ایک ٹیلے پر موجود بیرک میں منتقل کر دیا گیا۔ انگریزوں نے ابتدائی طور پر اپنی سہولت کے لئے موجودہ دسٹرکٹ کورٹ سے لے کر ملتان روڈ تک کی سڑک کو دی مال کا نام دیا اور اس پروقت کے مطابق شاندار دکانیں اور کھانے پینے کے مراکز بنائے۔ اسی سڑک پر ایک خوبصورت باغ بھی تھا جسے بینڈ سٹینڈ گارڈن کہا جاتا تھا۔یہاں ہفتے میں دو دفعہ فوجی بینڈ بجایا جاتا جسے سننے اور دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں لوگ موجود ہوتے۔ بعد میں یہ گول باغ کے نام سے جانا جانے لگا مگر بھٹو دور میں اسے ناصر باغ کے نام دے دیا گیا۔اسی سڑک پر موجودہ گورنمنٹ ہوسٹل کی جگہ پر جام سیٹھ جی اینڈ کمپنی کا 1862 میں قائم کردہ یورپی طرز کی اشیا، بچوں کے کھلونوں، شراب ، عطر ، اسلحے سمیت بڑا سٹور، کشمیر اور چنبہ کی لکڑی کا ٹیرارتون کا سٹور اور کچھ دیگر شاندار سٹور ہوتے تھے۔

1851 میں انگریزوں نے تعمیر کی نیت سے لاہور کے بارے بہت سے فیصلے کئے۔ فوجیوں کی بیرکیں انارکلی کے گرد و نواح سے میاں میر کے علاقے میں منتقل کر دی گئیں۔ انارکلی سے میاں میر جانے والے راستے کو باقاعدہ سڑک قرار دے دیا گیا۔اس کے بعد پرانے مال روڈ کی رونقیں اس نئی سڑک کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ یہ بے نام سی سڑک ایک عرصے تک مختلف ناموں سے پکاری جاتی رہی۔ اس سڑک پر بینڈ سٹینڈ گارڈن سے کچھ آگے میونسپل مارکیٹ (ٹولنٹن مارکیٹ)تھی جہاں 1864 میں پنجاب کی دستکاریوں کی نمائش ہوئی اور اس حوالے سے اس سڑک کو نمائش گاہ روڈ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ 1875 کے لاہور کے باسیوں کے مطابق اس سے آگے ایک چٹیل میدان تھا جہاں بعد میں دائیں جانب جنرل پوسٹ آفس اور اس سے پہلے ایک بنک تعمیر ہوا۔بائیں جانب وائی ۔ایم۔سی کی عمارت، ایف سی کالج، مول چند بلڈنگ، کونوینٹ اور موجودہ تار گھر وجود میں آئے۔موجودہ ہائی کورٹ کی جگہ ایک میدان تھا جہاں قریب ہی حضرت شاہ چراغ کی خانقاہ تھی۔ تھوڑا آگے سڑک کی دوسری طرف لاہور کی واحد کیمسٹ کمپنی رچرڈ سن اینڈ کمپنی کی تنہا عمارت تھی۔ پلومر اینڈ کمپنی جو آج بھی کسی صورت قائم ہے جو اسی کی پیشرو ہے۔ہائی کورٹ والے میدان سے تھوڑا آگے دائیں طرف دو بنگلے تھے۔ کافی عرصے بعد ان میں سے ایک کو گرا کر گنگا رام مینشن کو تعمیر کیا گیا اور دوسرے میں فیلپس اینڈ کمپنی کا دفتر تھا ۔ اس عمارت کو بعد میں بمبئے سائیکل کمپنی ، کاروں کے ایک شوروم اور ورکشاپوں میں بدل دیا گیا۔

چیئرنگ کراس اور اور ہال روڈ کے درمیان دائیں جانب بریمنر (Bremner) کے فوٹو سٹوڈیو کے سوا کوئی عمارت نہ تھی جب کہ بائیں جانب تین بنگلے تھے جن میں کچھ دفتر تھے یا سرکاری افسران مقیم تھے۔ بعد میں ان بنگلوں میں ایک فورڈ کمپنی نے خرید لیا۔ ایک عمارت سنی ویو ہوٹل کے نام سے جانی جانے لگی ۔ ایک عمارت میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کا دفتر بھی رہا۔چیئرنگ کراس بڑا ویران مقام تھا سڑک کے دائیں طرف یہاں 1916 میں فری میسن والوں کی بلڈنگ میسن لاج تعمیر ہوئی۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر سڑک کے بائیں طرف نیڈو (Nedou) ہوٹل وجود میں آیا۔ اس ہوٹل کی جگہ بعد میں ہلٹن بنا اور آج وہاں آواری موجود ہے۔ نیڈو ہوٹل کے ساتھ ایک پرانی بیرک نما عمارت تھی ، یہاں قدیم پنجاب کلب تھا۔اس کلب کے عقب میں ایک ریکٹ کورٹ تھا۔ اس کورٹ کے پیچھے والی سڑک جو آج ایجرٹن روڈ کہلاتی ہے بڑے عرصے تک ریکٹ کورٹ روڈ کے نام سے مشہور رہی۔پنجاب کلب سے ملحق زمین پرایک چھوٹی سی آبادی تھی جسے ارنڈل (Arundal) کہتے تھے۔اس آبادی میں کچھ سرکاری اور غیر سرکاری افسران اور شہر کے معروف لوگ رہتے تھے۔اس سے آگے کشمیر روڈ تک کا علاقہ برنی گارڈن کہلاتا تھا۔ کشمیر روڈ سے آگے دائیں طرف لارنس گارڈن اور وہاں موجود لارنس اور منٹگمری ہال تھے جب کہ اس کے سامنے سڑک کے بائیں جانب گورنمنٹ ہاؤس تھا۔اس کے بعد نہر تک دائیں جانب سوائے ایک دو منزلہ بنگلے کے جو مہاراجہ پٹیالہ کی ملکیت تھا، باقی ویرانی کا راج تھا۔

جوں جوں یہ سڑک ترقی کرتی گئی۔یہاں یورپی درزی، بزاز، موسیقی کی دکانیں، مختلف اشیا کے سٹور اور لوگوں کو ترغیب دینے والی اشیا ہر طرف نظر آنے لگیں تو دسٹرکٹ کورٹ سے ملتان روڈ والے مال کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ شروع شروع میں نئی سڑک کو لارنس روڈ کہا گیا۔ مگر بعد میں اسے اپر مال کا نام دے دیا گیا۔ پرانی مال روڈ اپنی کمرشل حیثیت کھوتی گئی اور اس کا نام لوئر مال رکھ دیا گیا۔ یہ نام کب اور کس وقت رکھے گئے اس بارے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ مگر آج کی مال روڈ یا اپر مال روڈ لاہور کی بہترین سڑک اور شہر بھر کا حسن ہے جو اپنی رونق ، اہمیت اوربے پناہ مصروفیت کے باعث شہر کے وقار میں اضافے کا باعث ہے۔

تنویر صادق
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447137 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More