وہ آیا اور چھا گیا لیکن پھر۔۔۔ سب کو جوڑنے والے عامر لیاقت خود کیسے ٹوٹ گئے؟

image
 
 عامر لیاقت کی موت ایک افسوسناک خبر ہے کیونکہ اس کو طبعی موت نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ایک ساتھ کم وقت میں بہت کچھ کرنا چاہتے تھے شاید ان کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کے جیسا باصلاحیت اور ہر فن مولا کوئی نہیں- لیکن ایسے بندے کو سوسائٹی کے پریشرز برداشت کرنے پڑتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کی مخالفت کا نشانہ بنے رہتے ہیں اور شاید وہ اس دباؤ کو برداشت نہ کر سکے۔
 
مولانا کوکب نورانی کے مطابق ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ بہت آگے نکل چکے تھے سنبھل نہ سکے۔ ان دنوں وہ زندگی کی کڑی آزمائشوں سے گزر رہے تھے یہ ہم سب جانتے ہیں، ان کی کئی جذباتی ویڈیوز بھی آئیں جن میں وہ شدید ڈپریشن میں نظر آئے لیکن پوری قوم اس کو بھی ان کی اداکاری سمجھتی رہی۔ یہ وہ ہی مضبوط عامر لیاقت تھا جو بحث پر آئے تو کبھی ہار نہیں سکتا تھا اور بڑے بڑوں کی بولتی بند کر دیتا تھا۔
 
 حال والے عامر لیاقت ماضی کے مضبوط عامر سے کافی مختلف تھے اب کے عامر بہت ٹوٹے ہوئے تھے ان کے اندر امیدیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں انھوں نے کیا صحیح کیا، کیا غلط کیا اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں لیکن یہ ایک انتہائی باصلاحیت انسان کا زیاں ہے وہ یقیناً اپنے مقصد سے بھٹک گئے تھے۔ اس قدر اعلیٰ پیمانے کا توانائی سے بھرپور اور با صلاحیت انسان شاید ہی کوئی ہو۔ یا یوں کہہ لیں کہ اگر ہر فن مولا کی تعریف میں عامر لیاقت حسین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا وہ آیا اور چھا گیا۔ عموماً لوگوں کو اس مقام پر پہنچنے میں برسوں لگتے ہیں لیکن عامر لیاقت کے لئے خبروں میں رہنا چٹکیوں کا کام تھا ۔۔ ابتداء انھوں نے بہت اچھی کی تھی وہ اپنے کالج کے زمانے میں بھی لیڈرانہ صلاحیتیں دکھاتے رہے۔ ان کو ڈبیٹ کا شہنشاہ کہا جاتا تھا۔ وہ بہترین نعت خواں تھے اور معلومات کے حوالے سے ایک مذہبی اسکالر مانے جاتے تھے۔ انہیں صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ سیاست کا بھی حصہ بن گئے۔ سیاست میں بھی انھوں نے اپنے بھرپور جوہر دکھائے۔ بہترین کالم نویس تھے۔ ان کے کالم " خبروں پر عامری جادوگر کا تبصرہ" (پرچم) اور جنگ کا کالم " لاؤڈ اسپیکر " طنز و مزاح سے بھر پور ہوتے تھے اور عوام میں ان کی مقبولیت کی وجہ بنے زبان پر تو ان کو عبور تھا ہی ساتھ میں ذہانت نے ان کے لئے شہرت کے راستے کھول دیے۔
 
image
 
انہوں نے میڈیا پر اپنی ابتداء ایک مذہبی شو عالم آن لائن سے کی جو پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور شاید آخری معروف مذہبی شو ہے۔ وہ ایک انتہائی الگ انداز کے ساتھ آئے، مذہب اس وقت ایک خشک مضمون سمجھا جاتا تھا۔ یہ بہت بڑی بات تھی کہ ہر عمر کے لوگوں کو شوق کے ساتھ مذہبی معلومات کی طرف لایا جائے۔ ایک انتہائی جدا گانہ سوچ کے ساتھ وہ معلومات کا خزانہ تھے۔ عالم آن لائن میں ان کا کردار مختلف مسلکوں کو جوڑ کر رکھنا اور مذہبی مسائل کا انتہائی آسان حل نکالنا تھا جو عام عوام کی سمجھ کے مطابق ہو۔ ان کی شائستہ زبان نے لوگوں کے دل موہ لئے تھے۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ علماء کے مسلک سے متعلق تنازعات کو اس طرح حل کر لیتے کہ کسی کو پتا بھی نہیں چلتا۔ رمضان نشریات کے بانی بھی عامر لیاقت ہی ہیں اس مد میں انھوں نے ایک دلچسپ پروگرام کی ابتداء کی جو عوام میں بہت مقبولیت کی انتہا ہر پہنچ گیا پھر دوسرے لوگوں نے بھی ان کی تقلید کی لیکن رمضان نشریات لوگ عامر لیاقت کی ہی دیکھنا پسند کرتے تھے کیونکہ وہاں ایک بہت ہی اچھے ماحول کے ساتھ سیکھنے اور معلومات میں اضافے کے لئے پروگرام کو منفرد انداز میں ڈیزائن کیا جاتا تھا۔
 
رمضان نشریات تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اصل مسئلہ گیم شو سے شروع ہوا ویسے گیم شو بھی ان کا ایک مختلف انداز کا پروگرام تھا لیکن ریٹنگ کی دوڑ نے انھیں شاید اپنے ٹریک سے بالکل ہی ہٹا دیا تھا۔ شوبز میں آنے والوں پر سب سے بڑا دباؤ ریٹنگ کا ہوتا ہے لیکن وہ جس شہرت کی بلندیوں کو چھو چکے تھے یا جس پرسنالٹی کو وہ لے کر آگے بڑھے تھے عوام کو اس کا دکھ تھا کہ بعد والے عامر نے ابتداء والے عامر کو کیوں مار دیا۔ وہ عامر تو لوگوں کے دلوں میں رہتا تھا اور اسے ابھی اور بلندیوں پر جانا تھا لیکن اس کو راستے میں کہیں چھوڑ دیا گیا تھا اور یقیناً عوام کو عالم آن لائن والے عامر جیسا کوئی دوسرا ابھی تک نظر نہیں آیا ہے۔ کاش وہ اسی ٹریک پر چلتے رہتے !!!
 
image
 
لیکن شاید وہ اپنی صلاحیتوں کو لوگوں پر آشکار کرنا چاہتے تھے کہ دیکھو میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ ان کے اچھے کام بھی بہت سارے ہیں۔ بہر حال ایک ذہین اور باصلاحیت انسان کا اس طرح اچانک دنیا سے چلا جانا انتہائی افسوسناک ہے !!!
YOU MAY ALSO LIKE: