چائلڈ لیبر ڈے

بچے ہر گھر،ہر محلے،ہر خاندان،ہر علاقہ کی شان ہوتے ہیں رونق ہوتے ہیں بلکہ بچے پھول جیسے لگتے ہیں یا یوں کہنا چاہیے وہ پھول ہی ہوتے ہیں۔ بھی گھر سے نکلنا ہوتا ہے تو راستے میں بیشمار دکانیں، ورکشاپس ایسی ملتی ہیں جہاں بچے کام کر رہے ہوتیہیں۔..... یہ نونہال ہوٹلوں، چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں، چھوٹی فیکٹریوں، گاڑیوں کی کنڈیکٹری، بھٹہ خشتوں، پٹرول پمپ پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت جبری مشقت پر مجبور ہیں۔......
بچے ہر گھر،ہر محلے،ہر خاندان،ہر علاقہ کی شان ہوتے ہیں رونق ہوتے ہیں بلکہ بچے پھول جیسے لگتے ہیں یا یوں کہنا چاہیے وہ پھول ہی ہوتے ہیں۔ بھی گھر سے نکلنا ہوتا ہے تو راستے میں بیشمار دکانیں، ورکشاپس ایسی ملتی ہیں جہاں بچے کام کر رہے ہوتیہیں۔..... یہ نونہال ہوٹلوں، چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں، چھوٹی فیکٹریوں، گاڑیوں کی کنڈیکٹری، بھٹہ خشتوں، پٹرول پمپ پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت جبری مشقت پر مجبور ہیں۔......
#چائلڈ لیبر اور چائلڈ ورک میں فرق = آئی۔ایل۔او اور یونیسیف کے مطابق بچوں کے کیے گئے ہر کام کو چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ چائلڈ لیبر یعنی بچوں کی مشقت اور چائلڈورک (بچوں کے کام) میں امتیاز کرنے کی ضرورت ہے۔اگر چائلڈ ورک بچے کی شخصی و جسمانی نشوونما اور اسکی تعلیم پر برا اثر نہیں ڈال رہا تو اس طرح کے کام کو چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جائے گا مثلاً اگر ایک بچہ سکول سے واپس آکر یا سکول کی تعطیلات کے دوران اگرکام کرتا ہے یا فیملی بزنس میں ہاتھ بٹاتا ہے تو اسے چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جائے گا بلکہ اسطرح کاکام تو بچوں کی شخصی نشوونما کیلیئینہایت ضروری ہے۔اور نہ صرف انکو ہنر مند بناتا ہے بلکہ انکو معاشر ے کے قابل رکن بننے میں بھی مدد دیتا ہے
بچوں کے حوالے سے دیکھا جاے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ان کو سکول میں ہونا چاہیے لیکن ہم انہیں سکول بھیجنے کی بجائے صبح دکانوں پر بھیج دیتے ہیں۔ جہاں ان سے شدید مشقت والا کام تک لیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں اور پروقار طرز زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں. بلکہ اپنا بچپنا کھو دیتے ہیں جو کہ ہر بچے کا پیدائشی حق ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جس رفتار کے ساتھ آبادی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اسی رفتار کے ساتھ غربت، بے روزگاری، مہنگائی کے ساتھ سماجی ومعاشی اور مالی مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور ان گمبھیر مسائل کی وجہ سے چائلڈ لیبر کی شرح میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے....
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دسواں بچہ کسی نہ کسی محنت مشقت کے اندر مصروف ہے۔ میرا اپنا یہ خیال ہے، کہ پہلے یہ تعداد اتنی نہیں تھی جو موجودہ مہنگائ کی ہوشربا لہر کے بعد مجبوری کی وجہ سے بڑھے گی کروڑوں بچے پوری دنیا میں محنت مشقت اور کا کام کرتے ہیں۔حالانکہ اس عمر میں جب انہیں سکول جانا چاہیے، ایک اچھا بچپن گزارناچاہیے لیکن وہ محنت اور مزدوری کرتے ہیں۔ کیا یہ معاشرتی بیحسی نہیں ہے؟کیا یہ اشاریے ایک زندہ معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔.....
چائلڈ لیبر کا عالمی دن 12 جون کو منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات،سیشنز، لیکچرز اور واکس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے....تقریبا ًایک سو ستر ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ 1974 میں پہلی مرتبہ یہ دن منایا گیا اور پاکستان کے اندر 2002میں پہلی دفعہ منایا گیا۔........
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 160ملین سے زائد بچے چائلڈ لیبر کے منحوس چکر میں پھنسے ہوئے۔اور ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ دس لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت کی گرہ سے بندھے ہیں ملک میں غربت وبیروزگاری اور مہنگائی کے باعث یہ ننھے پھول اسکول کے در و دیوار سے دور ہو گئے ماں باپ کے پیار سے دور ہوگئے زیور تعلیم سے آراستہ ہونا ان کی آنکھوں میں خواب بن کر تیرنے لگا ہے غریب گھروں کے یہ شہزادے ایک سراب کی سی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔۔۔۔پاکستان میں بڑھتے تعلیمی اخراجات، مہنگائی، غربت وبیروزگاری کے نتیجہ میں چائلڈ لیبر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے.............
کچھ عرصہ قبل انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے تحت جو رپوٹ شائع ہوئی، اس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، جہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد لڑکے اور 27 فیصد لڑکیاں چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کے یے حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے جو بچے محنت و مشقت کر رہے ان کو تعلیم بھی دینی ہو گی اور تربیت بھی کرنی ہو گی تاکہ وہ ایک مفید شہری بن سکیں ورنہ ہم معاشی اور معاشرتی طور پر یوں ہی پستے رہیں گے اور یہ بات ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ بچے کمانے کے لیے نہیں ہوتے۔
# پاکستان اور پنجاب میں قوانین کی صورت حال۔۔
*ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال ہے ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔اس قانون کے ہونے کے باوجود پاکستان میں آپ کو گھر گھر میں 10سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکیاں چوبیس گھنٹے کام کرتے ہوئے دکھائی دیں گے.
*بچوں کی گھریلو مشقت کے خاتمے کے لیے
The Punjab Domestic workers Act 2019
پرعمل درآمد کے لیے انتظامی اقدامات جلد از جلد یقینی بنائے جائیں۔ گھریلو بچہ مزدوری کی صورت میں بچے اپنے تعلیم صحت تفریح، ترقی والدین کے ساتھ رہنے اور تحفظ سمیت بے شمار حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے معاہد ہ برائے حقوق اطفال کے مطابق ہر بچے کا برابری کی بنیاد حق ہیں، بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد کے لیے قابل تشویش امر یہ ہے کہ سال 2019 میں گھریلو بچہ مزدوری کی ممانعت کی قانونی شق اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود سال 2022 تک بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے پر کسی ایک بھی فرد کے خلاف قانونی کاروائی نہ ہو سکی ہے۔

*The Punjab Restriction on Employment of Children Act 2016
کے سیشن 4 کے تحت چائلڈ لیبر کی صوبائی کمیٹی کو فعال کیا جائے تا کہ بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے درکار قانونی و انتظامی اقدامات پرمبنی تجاویز حکومت کو دی جا سکیں۔
* حکومت کو چائلڈ لیبر سروے کے نتائج
جلد از جلد جاری کرنے چاہیے تا کہ صوبہ میں چائلڈ لیبر کی درست صورت حال کی عکاسی ممکن ہو سکے۔ اور چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے شواہد پرمبنی پروگرام تشکیل دیئے جا سکیں۔
انتہای افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ گھر یلو بچہ مزدوروں پر تشدد کے مرتکب افراد قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سزا سے بچ نکلتے ہیں، لہذا ضرورت ہے کہ
* پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن A-328، جو بچوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کو ڈیل کرتا ہے، کوناقابل راضی نامہ اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
* چائلڈ لیبر کے واقعات کی بالعموم اور گھر یلو چائلڈ لیبر کے واقعات کی بالخصوص اطلاع دینے کے لیے ہیلپ لائن یا آن لائن پورٹل کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں بچے مزدوروں کی موجودگی کی اطلاع دی جا سکے۔
* 5سال سے لیکر 16 سال تک کی عمر کے ہر بچے کو لازمی اور مفت تعلیم کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کی اہم تر جیح ہو نی چا ہیے، کیونکہ لا زمی تعلیم بھی بچوں کے مشقت میں داخلے کے امکانات کم کر سکتی ہے، اس ضمن میں ضرورت ہے کہ * پنجاب میں مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کے قانون مجریہ 2014 کو جلدازجلد نوٹیفائی کیا جائے۔
 
Shahid   Iqbal khan
About the Author: Shahid Iqbal khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.