دنیا کا مصروف ترین ٹرانسپورٹیشن نظام

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ٹرانسپورٹ کا نظام کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے ایک شریان کی مانند ہوتا ہے اور ذرائع نقل و حمل تہذیبوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم شاہراہ ریشم پر اونٹوں کے قافلوں اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع نے معاشی انضمام کو فروغ دیا اور لوگوں کے لیے شاندار سہولیات متعارف کروائیں۔عہد حاضر میں اسی ٹرانسپورٹ نظام کی بدولت عالمی سطح پر افرادی تبادلوں کو زبردست فروغ ملا اور دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک کی کوشش ہے کہ وقت کے بدلتے تقاضوں کی روشنی میں جدید نقل و حمل کو ترقی دی جائے اور اسے اقتصادی سماجی ترقی کا ایک مضبوط ٹول بنایا جائے۔

عالمی سطح پر نگاہ دوڑائی جائے تو چین نے حالیہ برسوں کے دوران جہاں زندگی کے تمام شعبہ جات میں بے مثال ترقی کی ہے وہاں نقل و حمل کے میدان میں بھی یہ دنیا کے مصروف ترین ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران چین نے اپنے اہم نقل و حمل کے تمام ذرائع کو ترقی سے ہمکنار کیا ہے اور عمدہ پالیسیوں کی بدولت آج چین مسافر اور مال بردار ریلوے، شاہراہوں، آبی گزرگاہوں اور شہری ہوا بازی کے حجم، بندرگاہوں کے کارگو تھرو پٹ، بزنس پوسٹل اور ایکسپریس سروسز حجم کے اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے۔

ان گزشتہ دس سالوں کو ملک کی ٹرانسپورٹیشن انڈسٹری کی تاریخی کامیابیوں سے بھرپور دہائی قرار دیا جا سکتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں چین کے جامع سہ جہتی نقل و حمل کے نیٹ ورک کو مزید فروغ ملا ہے جس نے مؤثر طریقے سے ملکی اور بین الاقوامی اقتصادی گردش کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنایا ہے۔اس دوران چین نے دنیا کا سب سے بڑا ہائی سپیڈ ریلوے نیٹ ورک، ایکسپریس وے نیٹ ورک، اور عالمی معیار کا پورٹ گروپ بنایا ہے۔ ایوی ایشن اور نیویگیشن عالمی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ جامع نقل و حمل کے نیٹ ورک کی مجموعی مائلیج 6 ملین کلومیٹر سے تجاوز کر چکی ہے۔ چین کی تیز رفتار ریل، چائنا روڈ، چائنا برج، چائنا پورٹ، اور چائنا ایکسپریس دلکش "چینی بزنس کارڈ" بن چکے ہیں۔ نقل و حمل کا جامع نظام دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور مصنوعات کی تجارت کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر چین کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔آج چین میں مضبوط ذرائع نقل و حمل ، وقت کی بچت اور آمد ورفت کی مسافت کو کم کر رہے ہیں، شہری اور دیہی علاقوں کی ظاہری شکل کو تبدیل کر چکے ہیں، رسد اور اقتصادی بہاؤ میں تیزی کی ضمانت ہیں ، جس سے نہ صرف ملکی معیشت کی ہموار گردش کو مضبوط حمایت ملی ہے بلکہ عالمی معیشت کی ترقی کو بھی موئثر طور پر آگے بڑھایا گیا ہے۔

اعداد و شمار مزید واضح کرتے ہیں کہ چین کیسے گزشتہ دس سالوں میں نقل و حمل کے اعتبار سے دنیا کے مصروف ترین ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں یومیہ 69,000 سے زائد بحری جہازوں کی بندرگاہوں پر آمد ورفت ہوتی ہے ، 26,800 ہوائی جہاز ٹیک آف اور لینڈنگ کرتے ہیں، اور تقریباً 300 ملین ایکسپریس شپمنٹس کا کاروبار ہوتا ہے ۔چینی ریلوے مصروف اوقات کے دوران، اوسطاً یومیہ 10,000 سے زیادہ مسافر ٹرینیں اور تیز رفتار ٹرینیں چلاتی ہے۔ شاہراہوں پر ٹریفک کا بہاؤ اوسطاً یومیہ 60 ملین ٹرپس سے تجاوز کر چکا ہے، اور آس پاس علاقوں میں نقل و حمل ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جس نے لوگوں کے لیے وسیع ثمرات لائے ہیں۔

چین نے ماحولیات کے تحفظ کو اولین اہمیت دیتے ہوئے شعبہ ٹرانسپورٹ میں سبز اور کم کاربن تبدیلی کو آگے بڑھایا ہے جس سے قابل ذکر نتائج حاصل ہوئے ہیں، عالمی سطح پر ذرائع نقل وحمل کی ترقی کے لیے بین الاقوامی تبادلے اور تعاون کو مزید گہرائی ملی ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لیے اقدامات جاری ہیں ۔ پائیدار نقل و حمل سے متعلق نمایاں پیش رفت نے چینی سماج کی مجموعی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ حقائق کے تناظر میں آج جدت پر مبنی معیشت پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جس میں شعبہ ٹرانسپورٹ کی کلیدی حیثیت ہے۔ اس ضمن میں سمارٹ ٹرانسپورٹ اور سمارٹ لاجسٹکس کی ترقی اور نئی ٹیکنالوجیز جیسے بگ ڈیٹا ، انٹرنیٹ ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بلاکچین کی نقل و حمل کے ساتھ گہرے انضمام کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔

 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 617352 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More