|
|
کہا یہ جاتا ہے کہ زبان کا وار تلوار کے وار سے زيادہ
مہلک اور خطرناک ہوتا ہے ماضی میں ایک فرد کی زبان سے نکلنے والا تیر دوسرے
کے جگر کو چھلنی کرتا تھا- مگر اب سوشل میڈیا کے اس دور میں جب کہ میمز کے
ذریعے کسی بھی انسان پر پوری سوشل میڈيا بریگیڈ حملہ آور ہو جاتی ہے اور
کسی بھی فرد کو اس حد تک تنقید کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں کہ وہ انسان جیتے جی
مر جاتا ہے- |
|
سوشل میڈیا کی ٹرولنگ کی
بد ترین مثالیں |
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی کی جان گئی اور آپ کی
ادا ٹہری آج کل کے دور میں سوشل میڈیا کے بارے میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ
اس شعر کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ کسی کی جان گئی مگر آپ کا مذاق
ٹہرا-ایسی ہی کچھ بدترین مثالوں کے بارے میں ہم آپ کو بتائيں گے جس کے سبب
اکثر افراد شدید ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں |
|
1: وائٹننگ انجکشن یا
پلاسٹک سرجری |
عام طور پر شوبز سے جڑے لوگوں کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے
کہ وہ خوب سے خوب تر نظر آئيں تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر پسند کر سکیں- لیکن
اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈيا صارفین کو ان پر تنقید کرنے کا بھی شوق ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ اکثر اداکاروں کو رنگ صاف کرنے کے لیے وائٹننگ انجکشن لگانے
اور خوبصورت نظر آنے کے لیے پلاسٹک سرجری کروانے پر شدید ترین تنقید کا
سامنا کرنا پڑتا ہے- یاد رکھیں تنقید کا سامنا کرنے والا انسان جتنا بھی
خوداعتماد ہو ایک مرحلے پر ٹوٹ کر ضرور بکھرنے لگتا ہے اور اگر اس کو
سنبھالنے والا کوئی موجود نہ ہو تو آپ کی تنقید اس کے دل کے ٹوٹنے کا بھی
سبب بن سکتی ہے- |
|
|
|
2: لیک ویڈيوز |
سوشل میڈیا کا دوسروں کو تکلیف دینے کا ایک اور طریقہ
لیک ویڈيوز کو وائرل کرنا بھی ہوتا ہے- ماضی میں رابی پیرزادہ ، علیزے شاہ
، ڈاکٹر عامر لیاقت اور سابق گورنر سندھ زبیر خان کی لیک ویڈيوز اس بات کا
عملی ثبوت ہیں-ان ویڈيوز کے سامنے آنے کے بعد اخلاقی فریضہ تو یہ ہوتا ہے
کہ ان ویڈيوز کو آگے نہ پھیلایا جائے مگر وائرل کرنے کے شوق میں مبتلا سوشل
میڈیا بریگیڈ ان ویڈيوز کو ایک دوسرے کےساتھ بغیر یہ سوچے شئیر اور کمنٹ
کرتے ہیں کہ ان کے لفظوں کے تیر کس کس کے جگر کو چھلنی کرنے کا سبب بن سکتے
ہیں- |
|
3: تقریر کے الفاظ پکڑ
کر مذاق بنانا |
ہمارے ملک کی سیاست اس وقت بدترین دور سے گزر گئی ہے
جہاں پر مخالفین ایک دوسرے کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھنے کے بجائے ذاتی
پگڑياں اچھالنے کے موقع ڈھونڈتے ہیں- ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی کے منہ
سے کوئی بھی لفظ نکلے تو وہ اس کو مذاق کا نشانہ بنائيں جب کہ کی بورڈ کے
ان چیتوں سے اگر یہ کہا جائے کہ صرف دس افراد کے سامنے ہی کچھ بول کر
دکھائيں تو ان کے منہ میں لفظ اٹکنا شروع ہو جائيں گے- مگر یہی لوگ کبھی
بلاول کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں کا مذاق بناتے ہیں تو کبھی عمران خان کے
اٹکنے پر نقطہ چینی کرتے ہیں اس تنقید کو کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ
دوسرے فرد کو کس حد تک اذیت پہنچاتے ہیں- |
|
4: شادی طلاق ذاتی معاملہ ہے پھر کسی کی
ٹوہ کیوں |
سوشل میڈيا نے میڈیا پرسن کو آپ کے اتنا قریب کردیا ہے کہ اب ان کی گھر اور
ان کی ذاتی زندگی کا ہر ہر واقعہ آپ کے عمل میں آتا ہے ایک اعتبار سے یہ
ایک اچھا عمل ہے کہ لوگ ان لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جن کو وہ
چاہتے ہیں- مگر اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے کہ اب ان لوگوں کی میاں بیوی کی
ذاتی چپقلش بھی صرف ان کے گھر تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ عوام کے گھروں تک
جا پہنچتی ہے جو اس معاملے کو سنبھالنے کے بجائے مصالحے لگا کر ایک دوسرے
کے ساتھ شئير کرتے ہیں جس کی مثالوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور
ریحام خان کی طلاق، سجل اور احد کی طلاق کی افواہیں، ڈاکٹر عامر لیاقت اور
ان کی بیویوں طوبی اور دانیہ کے ساتھ ان کے تعلقات وغیرہ قابل ذکر ہیں- |
|
|
|
سوشل میڈیا کے استعمال
کے حوالے سے ہماری ذمہ داری |
جس طرح عام زندگی میں ہم سب کی یہی کوشش ہوتی ہے اپنی
کسی بات سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائيں یہی سوچ ہماری سوشل میڈيا کے
استعمال کے دوران بھی ہونی چاہیے اور ہمیں چاہیے کہ ایسا کوئی عمل نہ کریں
بو کسی دوسرے کو اس حد تک دکھ دینے کا سبب بن جائے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو
کر موت کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جائے |