|
|
پاکستان کے بننے کا بنیادی سبب یہی تھا کہ ایک ایسا خطہ
زمین حاصل کیا جائے جہاں پر اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جا سکے۔
اور جب یہ ملک ملا تو جہاں اسلامی قوانین اور اصول رائج کیے گئے وہیں پر
کچھ ایسے رواج بھی چھپ چھپا کر ہمارے معاشرے میں سرائيت کر گئے جن کا اسلام
سے تو کوئی تعلق نہ تھا مگر معاشرتی رواج کی صورت میں وہ ہماری جڑوں میں
بیٹھ گئے- |
|
بیوہ عورت اور معاشرے کا
رویہ |
اسلامی قانون کے مطابق بیوہ عورت کو بہت عزت سے نوازہ
گیا ہے اور اس کے لیے شوہر کے مرنے کا مطلب ہندوستانی معاشرے کے مطابق
زندگی کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ اس کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اگر چاہے عمر
کے کسی بھی حصے میں ہو اپنی مرضی سے اپنی باقی زندگی گزار سکتی ہے- مگر اس
کے بر خلاف کچھ ایسے قوانین ہمارے معاشرے میں بیوہ عورت کے لیے آج بھی
موجود ہیں جو کہ ایک سوالیہ نشان ہیں- |
|
1: شوخ رنگوں کے کپڑے
نہیں پہن سکتی |
ہندو معاشرے میں ایک بیوہ کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ
سفید رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کا لباس نہیں پہن سکتی ہے- اگرچہ ہمارے
معاشرے میں اس بات پر بہت سختی سے عمل نہیں کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود
معاشرہ اپنی بہت وسیع نظری کے باوجود بیوہ عورت کو شوخ اور تیز رنگوں کے
ساتھ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے- اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بیوہ ہلکے
رنگوں کے کپڑے ہی پہنے اور اگر کوئی عورت تیز رنگ کے کپڑے پہن لے تو اس کو
سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے- |
|
|
|
2: خوشی کے موقع پر اس
کا سایہ نحوست کی علامت |
بیوہ عورت کو شادی بیاہ کے موقعوں پر دور رہنے کو کہا
جاتا ہے دلہن کے ہاتھوں پر مہندی لگاتے ہوئے بھی سب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ
بیوہ عورت اس رسم سے دور رہے- اسی طرح سہرہ بندی کی رسم ہو یا دلہن کی
رخصتی کا وقت بڑی بوڑھی خواتین اس بات پر اصرار کرتی نظر آتی ہیں کہ بیوہ
عورت ایسے کسی عمل کا حصہ نہ بنے- |
|
3: تنہا
رہنے پر مجبور کرنا |
شادی ایک ہی بار ہوتی ہے یہ وہ اصول ہے جو ہمارے معاشرے
میں مرد کے لیے تو نہیں مگر عورتوں کے لیے سختی سے رائج ہے- یہی وجہ ہے کہ
جوانی میں بیوہ ہونے والی عورت کو بھی ہمارے معاشرے میں چھوٹے چھوٹے بچوں
کو تنہا پالنے کی اجازت تو مل جاتی ہے- مگر دوسری شادی کر کے اپنی تنہائي
بانٹنے کی اجازت دینے کو یہ معاشرہ تیار نہیں ہے حالانکہ اسلام اس بات کی
کھلے لفظوں میں اجازت دیتا ہے- |
|
4: زیور پہننے کی اجازت نہ ہونا |
ہندوستان میں بیوہ ہونے والی عورت کی بیوگی کا اعلان اس کی چوڑیاں توڑ کر
کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کو ساری عمر چوڑیاں اور دوسرے زيور پہننے
نہیں دیا جاتا ہے- حالات یہاں بھی زيادہ مختلف نہیں ہیں اور بیوہ ہنے کے
بعد بھی زیور کا استعمال کرنے والی عورت کو انتہائی معیوب نظروں سے نہ صرف
گھورا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے- |
|
|
|
یاد رکھیں ! |
جس طرح بیوی کے مرنے کے بعد شوہر کی زندگی ختم نہیں ہوتی
ہے اسی طرح عورت کی زندگی کو بھی مرد کے مرنے کے بعد ختم سمجھنا ایک غلط
خیال ہے بیوہ عورت کو بھی معاشرے میں وہ تمام حقوق ملنے چاہیے ہیں جو کہ
اسلام اس کو دیتا ہے- |