پاکستان میں اکثر سوشل میڈیا پوسٹس پر یہ تبصرہ دیکھنے کو
ملتا ہے کہ جہاں چین کی اقتصادی ترقی اور معاشی پالیسیوں سے سیکھا جائے ،
وہاں کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی کچھ سبق ضرور حاصل کرتے ہوئے عملی اقدامات
کیے جائیں۔ظاہر ہے اس کی بنیادی وجہ چینی حکام کی مضبوط انسداد بدعنوانی
پالیسیاں اور شفافیت کا ایک ایسا کڑا نظام ہے جو بلا تفریق سب کا احتساب
کرتا ہے۔اس کا سہرا موجودہ چینی صدر شی جن پھنگ کو بھی جاتا ہے جنہوں نے
اپنی مدت صدارت کے آغاز ہی سے ملک کی پائیدار اقتصادی سماجی ترقی کے لیے
انسداد بدعنوانی کو نمایاں اہمیت دی اور ملک گیر سخت اقدامات اپنائے ۔
انہوں نے اس بات پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ ملک اور قوم کی بقاء کے لیے
بدعنوانی کا جڑ سے خاتمہ لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایسا مضبوط نگران
نظام تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں قوانین و ضوابط کی بہتری سے سرکاری اداروں
میں بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔یہ نظام اس بات کو یقینی بنانے کے
لیے کوشاں ہے کہ سرکاری عہدے دار بدعنوانی کے مرتکب ہونے کی جرات ہی نہ کر
پائیں اور نہ ہی کبھی اُن کے دل میں بد عنوانی کی خواہش جنم لے پائے ۔
بدعنوان اہلکاروں کو سزا دینے اور بدعنوانی کی روک تھام کے لیے نظام کی
تعمیر کے علاوہ، چین نے اپنی انسداد بدعنوانی مہم میں تعلیم کے کردار پر
خصوصی زور دیا ہے۔ جون 2019 میں، پارٹی کے 90 ملین ارکان کو کرپشن سے باز
رکھنے کی خاطر ایک ملک گیر تعلیمی مہم کا آغاز کیا گیا جس کا موضوع تھا "
بانی مشن پر قائم رہنا"۔ تعلیم بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے چین کے تین جہتی
فارمولے کا ایک اہم پہلو ہے جس میں سخت سزا اور نظام کی تعمیر شامل ہے۔ اس
نقطہ نظر کا مقصد بدعنوانی سے جڑے فوری مسائل اور اس کی بنیادی وجہ دونوں
کو حل کرنا ہے۔
انہی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ نومبر 2012 میں سی پی سی کی 18ویں قومی
کانگریس کے بعد سے، چین نے بدعنوانی سے نمٹنے میں غیر معمولی کامیابیاں
حاصل کی ہیں ۔ اکتوبر 2021 تک، ملک بھر میں تادیبی معائنہ اور نگرانی کے
اداروں نے بدعنوانی کے 40 لاکھ سے زائد مقدمات کی چھان بین کی جس کے نتیجے
میں تقریباً 39 لاکھ 98 ہزار افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔اسی طرح گزشتہ سال
بد عنوانی میں ملوث 1,273 مفرور افراد کو چین واپس لایا گیا ، جن سے 16.74
بلین یوآن (تقریباً 2.5 بلین ڈالر) کی غیر قانونی رقوم برآمد کی گئیں۔صرف
پچھلے سال کی ہی بات کی جائے تو متعلقہ اداروں نے لوگوں کے معاش سے جڑے
امور میں بدعنوانی سے متعلق 125,000 سے زیادہ کیسز میں 115,000 افراد کو
تادیبی سزائیں دیں۔یہ ظاہر کرتا ہے جب احتساب کا نظام مضبوط ہو گا تو کرپٹ
عناصر کی ہمت نہیں ہو گی کہ کسی بھی قسم کی بد عنوانی کر سکیں۔
اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا
کی مرکزی کمیٹی نے "انسداد بد عنوانی" کے موضوع پر 40 ویں سرگرمی کا انعقاد
کیا . شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ سب سے اہم
سیاسی امر ہے جو لوگوں کی امنگوں کے عین مطابق ہے اور عوام سے براہ راست
جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سی پی سی کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد
سے اگرچہ ملک میں بدعنوانی کے خلاف جنگ میں نمایاں نتائج اور اہم تجربات
حاصل ہوئے ہیں، لیکن صورتحال بدستور سنگین اور پیچیدہ ہے۔کرپشن کے خلاف
"زیرو ٹالیرنس" کی پالیسی پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے مختلف شعبوں میں
انسداد بدعنوانی کی مربوط کوششوں کا فروغ ضروری ہے۔ شی جن پھنگ نے اس بات
پر زور دیا کہ طاقت اور حکام کے گورننس نظام اور طریقہ کار میں بہتری اور
بد عنوانی کی طویل مدتی روک تھام اور کنٹرول نہایت ضروری ہے۔ پارٹی اور
ریاستی نگرانی کے نظام میں اصلاحات کو مزید گہرا کیا جائے تاکہ اس بات کو
یقینی بنایا جا سکے کہ طاقت کا غلط استعمال نہ ہو۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چین میں اول تو ، انسداد بدعنوانی کے لیے ایسے
نظام اور طریقہ کار کو بہتر کیا گیا ہے جس کے تحت کوششوں کی ہم آہنگی سے
نمایاں فرق پڑا ہے۔ ان میں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کی متحد قیادت، مختلف
سطحوں پر پارٹی کمیٹیوں کی کمانڈ اور کوآرڈینیشن، نظم و ضبط کے معائنہ
کمیشنوں اور نگرانی کمیشنوں کی تنظیم اور ہم آہنگی، فعال محکموں کے درمیان
موثر تعاون اور لوگوں کی شرکت اور حمایت شامل ہے۔
دوسرا ، ملک میں بدعنوانی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے کی مہم زور وشور سے
جاری ہے۔یہ مہم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پارٹی کے ارکان اور عہدیداروں
کو طاقت کے غلط استعمال سے روکا جائے، وہ اپنے صاف ضمیر اور سیاسی شعور کی
وجہ سے بدعنوانی کی کوئی خواہش نہ رکھتے ہوں۔ تیسرا، چین نے اپنے نظم و ضبط
اور تادیبی کارروائیوں کو سختی سے برقرار رکھا ہے۔ بدعنوان عناصر کو کڑی
سزائیں دی جاتی ہیں۔ چین کے نزدیک بدعنوانی سے سختی سے نمٹنا اس باعث بھی
لازم ہے کہ یہ پارٹی کے نظریات، رہنما ضوابط ، اصولوں اور پالیسیوں کے نفاذ
میں رکاوٹ ہے اور حکومتی بنیادوں کو کمزور کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اہم شعبوں
میں انسداد بدعنوانی کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے اعلیٰ قیادت کا وژن
بدستور برقرار ہے، عزم غیر متزلزل ہے اور نظم و ضبط کی پاسداری شرط اول
ہے۔یہی وہ پالیسیاں ہے جو ایک ترقی پزیر ملک ہونے کے باوجود چین کو عروج کی
جانب لے جا رہی ہیں اور دیگر ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک روشن مثال ہیں کہ
اگر کرپشن کے خاتمے کا عزم مصمم ہو تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے اور سماج
استحکام اور ترقی کی جانب بڑھتا ہے ، بصورت دیگر کرپشن ملک کی جڑوں کو
کھوکھلا کرتے ہوئے قوموں کو زوال پزیر کر دیتی ہے۔ |