یہ مہنگائی غریب کو بھکاری بنا رہی ہے

دوکاندار حضرات اس بات سے زیادہ واقف ہیں جبکہ مارکیٹوں بازاروں گلی محلوں میں بھی آپ اس کثرت کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ بھکاریوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اقتدار کے گھوڑوں کی لگامیں پکڑنے والوں کی غریب دشمنی مہنگائی کے زریعے اپنے ظلم کا اعلان کرتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے غریب لوگ بے روزگارہوکر مہنگائی سہنے کی برداشت کھو تے جا رہے ہیں اور خودکشی کے قریب جا کر اپنے بچوں کے لیے واپس لوٹ آتے ہیں کام مانگنے والے بھیک مانگنے پر آمادہ ہو کر اجنبی شہروں کا رُخ کرلیتے ہیں۔عورتیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو ساتھ لیے راشن کے واسطے پیسے مانگتی پھرتی نظر آتی ہیں۔میں اپنے آپ کو اُن کارو باری افراد میں شمار کرتا ہوں جو ظلم خرید کر ظلم بیچنے پر خود کو راضی نہ کرکے ناکام کاروباری کہلاتے ہیں کیونکہ چیزیں اپنی مالیت اور فائدے کی قیمت سے بھی آگے نکل چکی ہیں جو مہنگائی نہیں ظلم کا روپ ہیں اور اسی ظلم نے غریب کو غربت کی لکیر سے بھی نیچے بھکاری پن کے حلقے میں لا کھڑا کیا ہے۔ میں اپنے کاروبار کے اڈے پر بیٹھا روز راشن تلاش کرنے والے مستحق لوگوں کی جذبہ انسانیت سے حسب توفیق مدد کرنا اپنے حقوق العباد کا فرض سمجھتا ہوں اور غریب لوگوں سے خریداری کرنایعنی اپنی ضرورت کے بنا اُن کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے چیزیں خریدنا بھی ثواب مانتا ہوں تاکہ کسی کو بھیک سے بچانے والی عزت نفس سلامت رہے۔ چند روز پہلے ایک انتہائی غریب مجبور صاحب اولاد شخص بھیک مانگتے آیا جو بیٹھی ہوئی دیمی آواز میں اپنی حاجت بیان کرنے لگتا تو الفاظ گلے میں اٹک جاتے اس کی صدا پر کوئی پانچ کا سکہ تھما دیتا تو کوئی دس کا نوٹ اور کوئی لاکھوں کے کاروبار پر بیٹھ کر کہتا کہ معاف کرو۔اسے دیکھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ وطن غریباں میں کوئی بھی سکھی نہیں ہر غریب سینے میں کوئی سلگتا ہوا زخم لئے پھرتا ہے اور حساس لوگوں کے لیے تو دنیا میں قدم قدم پر دوزخ کا دروازہ کھلتا ہے۔ مہنگائی بے روزگاری کے جبڑوں میں پسے ہوئے اس مجبور غریب کے چہرے پر غم کی کونپلیں پھوٹتی دیکھائی دے رہی تھیں میں نے بڑی عزت و محبت سے اسے پاس بیٹھا کر مشروب پیش کرتے ہوئے کہا قبول فرمائیے پھر بڑی اپنانیت سے اس کی اُداسی کا سبب پوچھاتو اس نے نگائیں جھکا لیں مجھے اس کا حال پوچھنا غلطی لگ رہا تھا کہ جیسے میں نے اس کی بے بسی کے پھوڑے کو چھیڑ دیا ہو۔اس کا چہرہ میری نگاہوں کو جو محسوسات سونپ رہا تھا مجھ پرعیاں ہو رہی تھیں کہ ڈستی ہوئی خاموشی میں وہ احساس غم کی دھار پر اپنی توقعات کو خود ہی زخمی کرتے ہوئے بولنے کی ناکام کوشش کرتا اور پھر سے ہمت ہار کر دوبارہ خاموشی میں چلا جاتا۔ وہ بھکاری نہیں مزدور تھااور اپنے غم کا پردہ رکھنا جانتا تھا میں نے اسے مزید مجبور نہ کیا اور اپنی جیب سے اس دن کی ساری کمائی اس کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا قبول کر لیں گے تو مجھ پر احسان ہوگااس نے وہ رقم دیکھی تو آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی اور چہرہ مرجھاہٹ کو توڑتے ہوئے کسی مصیبت کے کچھ روز ٹل جانے کے یقین کا احساس دینے لگا اس کے حوصلے نے ہوش پکڑا اور بولامزدور تو روز اپنا کنواں کھود کر بھوک کی پیاس بجھاتا ہے اور اس پر وہ شکوہ بھی نہیں کرتا۔ مگر جب مزدوری نہ ملے اور قرض کوئی اس لیے نہیں دیتا کہ واپس دینے کے حالات کا بندہ نہیں ہوں۔ ہم غریب لوگ نسلوں سے ٹیکس دے کر ملک کو پال رہے ہیں اور یہ محب وطن ہم غریبوں کو بے روزگاری کے چند دن بھی نہیں پال سکتے۔ جب بھی حاکم وقت نے ملک کے نام پر ہم غریبوں کے تن ننگے کرنے کی کوشش کی تو ہمارا سخت جان افلاس کبھی بے پردگی پر آمادہ نہ ہوا ہم لاچاروں کا لباس چھینا گیا تو ہم برہنہ جینے کی بجائے شرم کا کفن اوڑھ کر زمین کی گود میں چھپ گئے اور زمین کے اوپر والوں کو آسمان کے اوپر والے کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ہم غریبوں کے لیے مزدوری ا ور کاروبار کے لیے کون تگ و دو کرئے گا یہ سیاسی مذہب کے لوگوں کو تو اپنے اقتدار کے داغدار مزار پر سفید ی کر نے سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔اس آنکھیں رکھتے اندھے زمانے کا کیا علاج کہ یہاں لیاقت کی قدر ہے نہ شرافت کی ہر بازار میں طاقت کا سکہ چلتا ہے ۔غربت بھی کیا تلخ سزا ہے کہ کشمکش حیات ہر وقت کلیجہ چھنی کیے رکھتی ہے میرا دل کہتا ہے کہ اس ملک میں ایمانداری کے ساتھ زندگی جی جانے والے پر جنت واجب ہو جاتی ہو گی کیونکہ قدرت غریبوں سے محرومیوں کا حساب نہیں لیتی بلکہ انعام دیتی ہے دنیا میں توغریب کی قسمت کا فولاد صاحب اختیار لوگ اپنے عہدے کے مقناطیس سے کھینچ لیتے ہیں اورغریبوں کے سامنے ہی ان کا رزق ان کی کمزور گرفت سے چھلانگیں لگا کر بھاگتا ہے تو ان کی ضرورتیں ماتم کرنے لگتی ہیں۔کون نہیں جانتا کہ اس ملک میں صاحب اختیار اور صاحب اقتدار لوگ باتوں کا کاروبار کرتے کرتے عیش کی زندگی جیتے رہتے ہیں اور ان کے گمراہ پیروکار ان کی شرافت کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے جبکہ ان کی شرافت شر اور آفت کا مجموعہ ہوتی ہے اگر یہ حقیقت کی نظروں سے دیکھ سکیں۔
 

Zafar Iqbal Zafar
About the Author: Zafar Iqbal Zafar Read More Articles by Zafar Iqbal Zafar: 4 Articles with 3073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.