ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے ایک عالمی ترقیاتی رپورٹ
شائع کی گئی ہے جس کا مقصد ترقی کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کمیو نٹی کی
تعمیر کو آگے بڑھانا ہے۔رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو یہ دستاویز اقوام متحدہ
کے 2030 کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں پیش رفت اور چیلنجوں کا تجزیہ کرتی ہے،
عالمی ترقی کے منظرنامے کو بیان کرتی ہے،ترقی کے بنیادی تصورات، بنیادی
اصولوں، نفاذ کے راستے، اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو جی ڈی آئی کی وضاحت
کرتی ہے، اور ترقی کی تعمیر کے لیے پالیسی سفارشات پیش کرتی ہے تاکہ بنی
نوع انسان کی مشترکہ اور پائیدار ترقی کے فلسفے کو عملی اقدامات کی روشنی
میں آگے بڑھایا جا سکے۔
مثال کے طور پر، ڈیجیٹل تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ خودکار پروڈکشن لائنز اور ذہین روبوٹس بڑی تعداد میں کارکنوں کی
جگہ لے سکتے ہیں، جو کہ روایتی مشقت والے پیشوں کے غائب ہونے کا باعث بن
سکتے ہیں، اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2020 اور 2025 کے درمیان تقریباً
850 ملین ملازمتیں مشینوں سے بدل دی جائیں گی۔ رپورٹ میں دنیا خاص طور پر
ترقی پذیر ممالک کو درپیش شدید چیلنجز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ترقی کی
راہ میں حائل مسائل سے نمٹنے ، بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے اور عملی
تعاون کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عالمی ترقیاتی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے کے
نفاذ میں پیش رفت اور چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اس
صدی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور عالمگیر وبا کے پیش نظر عالمی برادری
کو چاہیے کہ ڈیجیٹل تبدیلی کو اپنانے اور بنی نوع انسان کی مشترکہ پائیدار
ترقی کے حصول کی خاطر سبز تبدیلی کے لیے ترقیاتی تعاون اور عالمی شراکت
داری کی تعمیر پر زیادہ توجہ دے ۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ رپورٹ میں دنیا
اور چین کے مفید تجربے کی بنیاد پر 2030 کے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے آٹھ
پہلوؤں سے پالیسی سفارشات سامنے لائی گئی ہیں۔دوسری جانب یہ چین کے لیے
گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو پر عمل درآمد اور اسے آگے بڑھانے کا بھی ایک اہم
اقدام ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی 76ویں جنرل اسمبلی کی عام
بحث سے خطاب کے دوران گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو پیش کیا تھا ۔ یہ اقدام عالمی
ترقی کو درپیش فوری نوعیت کے چیلنجز سے نمٹنے میں رہنمائی کرتا ہے اور آٹھ
ترجیحی شعبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ان میں تخفیف غربت، تحفظ خوراک ،
عالمگیر وبا اور ویکسین، ترقی کے لیے فنانسنگ ، موسمیاتی تبدیلی اور سبز
ترقی، صنعت کاری، ڈیجیٹل اکانومی اور کنیکٹیویٹی ، شامل ہیں ۔اسی تناظر میں
عالمی ترقیاتی رپورٹ کہتی ہے کہ جی ڈی آئی کا مقصد موجودہ بین الاقوامی
ترقیاتی ایجنڈے کو تبدیل کرنا یا 2030 کے ایجنڈے کو کمزور کرنا یا اقوام
متحدہ کے 17 پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس جی ڈیز) کو تبدیل کرنا نہیں ہے،
بلکہ ایس جی ڈیز کے لیے عزم نو کی تشکیل ، عالمی شراکت داری کو بحال کرنا
اور بین الاقوامی ترقیاتی تعاون کو دوبارہ فعال کرنا ہے۔اپنے وسیع نقطہ نظر
کی وجہ سے ہی جی ڈی آئی کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے گرم جوش ردعمل
ملا ہے، جس میں 100 سے زائد ممالک نے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ جنوری
2022 میں، اقوام متحدہ میں جی ڈی آئی کے "دوستوں کا گروپ" بھی لانچ کیا گیا
جس میں اب تک 50 سے زیادہ ممالک شامل ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اہلکاروں سمیت دیگر عالمی ماہرین نے بھی وقتاً فوقتاً چین
کے تجویز کردہ اس اہم ترقیاتی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ
یہ 2030 کے ایجنڈے تک تیز رفتاری سے پہنچنے کے لیے ایک رہنماء سمت ہے
کیونکہ بد قسمتی سے مختلف مسائل اور تنازعات کے باعث ایس جی ڈیز کا حصول
قدرے دشوار ہو چکا ہے اور دنیا کے کئی خطے "آف ٹریک" ہیں۔ اگر دنیا نے ابھی
بھی لازمی عملی اقدامات نہ اپنائے تو شاید اس مشترکہ عالمی مقصد تک نہیں
پہنچا جا سکے گا۔ایسے میں چین کی پیش کردہ حالیہ عالمی ترقیاتی رپورٹ تمام
ممالک کی ترقی کے لیے مفید حوالہ فراہم کرتی ہے اور دنیا گلوبل ترقی کے ہدف
میں چینی دانش کی روشنی میں اس سے صحیح معنوں میں استفادہ کر سکتی ہے۔
|