اس وقت موجودہ عالمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دنیا
ایک صدی کی بڑی ان دیکھی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور پہلے سے مختلف تنازعات
میں گھری دنیا کو عالمگیر وبا نے مزید سنگین مسائل سے دوچار کر دیا
ہے۔مسئلہ یوکرین کی بات کی جائے یا پھر دیگر عالمی تنازعات کی ، مختلف
سیکورٹی چیلنجز یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں، وبا کی ابتری کے باعث عالمی
معیشت بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور مجموعی طور پر عالمی ترقیاتی عمل
کو شدید دھچکا لگا ہے۔عہد حاضر میں ان تمام مسائل سے نمٹنے اور دنیا کو ایک
مرتبہ پھر ترقی و خوشحالی کی پٹڑی پر لانے کے لیے قیام امن کی ضرورت آج
کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔لیکن سوال یہی ہے کہ عالمی قیام امن کو کیسے
یقینی بنایا جا سکتا ہے ؟ یقیناً اس عمل میں دنیا کی اہم طاقتوں کا کردار
انتہائی نمایاں ہے جن میں امریکہ ،چین،روس جیسے بڑے ممالک شامل ہیں۔
چین کا تذکرہ کیا جائے تو دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے جہاں
چین عالمی معاشی بحالی کی کوششوں میں مصروف عمل ہے وہاں امن کے قیام میں
بھی دنیا چین کے کردار کو تسلیم کرتی ہے۔ اس کی حالیہ مثال چینی صدر شی جن
پھنگ کا برکس بزنس فورم سے کلیدی خطاب ہے جس میں انہوں نے چینی دانش کی
روشنی میں عالمی امن کا ایک دیرپا فارمولہ پیش کیا ہے۔شی جن پھنگ نے کہا کہ
ہم نے تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ امن بنی نوع انسان کی مشترکہ امنگ ہے ۔
مختلف فریقوں کو مل کر امن کا تحفظ کرنا ہے۔امن سے محبت ، امن کا تحفظ اور
جنگوں سے سبق سیکھںے کی صورت میں ہی امن برقرار رکھا جائے گا۔ ہنگامہ خیز
دنیا کے سامنے ہمیں اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح کی روشنی میں امن کے تحفظ
کے مشن کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
شی جن پھنگ نے دنیا میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے تناظر میں مختلف
ممالک کی جانب سے پابندیوں کے اطلاق کو ایک "دو دھاری تلوار" قرار دیا
۔انہوں نے ایسی تمام بڑی طاقتوں پر واضح کر دیا کہ عالمی معیشت کو بطور
سیاسی آلہ کار اور ہتھیار استعمال کرنے اور بین الاقوامی مالیاتی نظام میں
اپنی غالب حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من مانی پابندیاں عائد کرنے سے جہاں
دوسروں کو اور خود کو نقصان پہنچے گا، وہاں دنیا بھر کے عوام کو بھی اس کی
بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ انہوں نے امن کی جستجو اور تحفظ کے لیے مشترکہ
کوششوں پر بھی زور دیا۔
چینی صدر کے خطاب میں ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور دیا گیا کہ تاریخ نے
ثابت کیا ہے کہ بالادستی، گروہی سیاست اور گروہی تصادم سے نہ تو قیام امن
ممکن ہے اور نہ ہی استحکام، بلکہ ایسے رویے جنگ اور تصادم کو مزید ہوا دیتے
ہیں۔ یوکرین بحران نے ایک بار پھر انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ایسے ممالک جو اپنی طاقت کے وسائل پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، عسکری اتحاد
کو پروان چڑھاتے ہیں، اور دوسروں کی قیمت پر اپنی سلامتی تلاش کرتے ہیں تو
وہ یقیناً سیکیورٹی مسائل کا شکار ہوں گے۔انہوں نے بین الاقوامی برادری پر
زور دیا کہ وہ "زیرو سم گیمز "کو ترک کرے اور مشترکہ طور پر تسلط اور طاقت
کی سیاست کی مخالفت کرے۔ شی جن پھنگ نے ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات
کی تعمیر کے تصور کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا جس میں باہمی احترام،
مساوات و انصاف اور باہمی سود مند تعاون شامل ہو۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چین کی جانب سے ایک مرتبہ پھر امن کی وکالت
کرتے ہوئے اہم طاقتوں سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن اس کی
اولین شرط یہی ہے کہ دنیا کے بہترین مفاد میں انا پرستی اور بالادست رویوں
کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مخلصانہ جذبوں سے آگے بڑھا جائے اور عالمی قیام
امن کو یقینی بناتے ہوئے آج انسانیت کو درپیش سنگین بحرانوں سے نمٹنے میں
تعمیری کردار ادا کیا جائے۔
|