|
|
عورت اور مرد کا ساتھ روز اول سے قائم ہے دونوں کو اللہ
تعالیٰ نے مکمل حقوق اور فرائض دیے ہیں مگر معاشرے نے ان حقوق و فرائض میں
جب بھی تبدیلی کرنے کی کوشش کی ہے وہیں پر بگاڑ دیکھنے میں آیا ہے- |
|
شادی کے بعد عورت کے
حقوق |
اسلام میں اگر دیکھا جائے تو مشترکہ خاندانی نظام کا
تصور موجود نہیں ہے یہاں تک کہ ایک عورت کے ذمے شوہر کے ماں باپ کی خدمت
کرنا بھی فرض نہیں ہے اور اگر وہ ساس سسر اور گھر والوں کی خدمت کرتی ہے تو
یہ اس کی اخلاقی ذمہ داری تو ہو سکتی ہے مگر مذہبی طور پر اس پر ایسی کوئی
ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے- |
|
مگر بد قسمتی سے برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد بھارت
سے جدا ہونے کے باوجود ہمارے بہت سارے رواج آج بھی ہندو معاشرت سے متاثر
ہیں جس کی وجہ سے بہو کی ذمہ داری شوہر سے زيادہ اس کے گھر والوں کو خوش
رکھنا ہوتی ہے- |
|
ایسے ہی کچھ حالات کے سبب 12 جون 2022 کو سرگودھا میں ایک ایسی واردات ہوئی
جس نے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا- |
|
پاکستانی نژاد آسٹریلین ساجدہ تسنیم کے
ساتھ ہونے والا سانحہ |
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم نہ صرف انسان کو شعور دیتی ہے بلکہ
اس کو زندہ رہنے کا طریقہ اور برداشت کرنا بھی سکھاتی ہے- مگر حالیہ معاشرے
میں یہ خیال بھی دم توڑتا جا رہا ہے- ظاہر جعفر نے تعلیم یافتہ ہونے کے
باوجود جس طرح سے نور مقدم کو قتل کر کے اس کی لاش کی بے حرمتی کی تھی تو
ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ معاشرے میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کا تعلیم
کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی ہے- |
|
|
|
ایسا ہی ایک گھرانہ ساجدہ تسنیم کا بھی تھا جو کہ کراچی
کی انجنئيرنگ یونی ورسٹی این ای ڈی سے سول انجنئيرنگ کی ڈگری کی حامل
انجینئير تھی- بارہ سال قبل اس کی شادی ایوب احمد کے ساتھ ہوئی تھی- |
|
یہ جوڑا ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہا
تھا اور اللہ نے ان کو دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے بھی نوازہ تھا جس میں سب
سے چھوٹی بچی کی عمر 3 سال تھی۔ ایوب احمد نوکری کے حوالے سے سعودی عرب
بحرین میں مقیم تھا اور شادی کے بعد ساجدہ تسنیم کو بھی اپنے ساتھ لے گیا
تھا- |
|
خوب سے خوب تر کی تمنا سب ہی کو ہوتی ہے تو اس جوڑے نے
بھی بچوں کے بہتر مستقبل کے خیال سے آسٹریلین شہریت کے لیے اپلائی کر دیا
اور ایوب احمد اپنی فیملی کے ساتھ 2013 میں آسٹریلیا شفٹ ہو گیا جہاں اس کی
فیملی کو شہریت بھی مل گئی- |
|
ہماری بیٹیاں بے حیائی میں کیوں رہیں
|
آسٹریلیا جانے کا فیصلہ اگرچہ ساجدہ اور ایوب کا باہمی فیصلہ تھا اور دونوں
نے ایک لمبے پراسسز سے گزرنے کے بعد ہی شہریت حاصل کی تھی- مگر اب ایوب کے
گھر والوں کو آسٹریلیا کے طرز زندگی پر اعتراض شروع ہو گئے اور ان کو یہ
لگتا تھا کہ ان کی اگلی نسل یعنی اگر ایوب کی بیٹیاں اس معاشرے میں پلی
بڑھیں تو وہ اسلام سے دور ہو جائيں گے- |
|
مستقل مطالبے کے سبب ایوب اپنی فیملی کو لے کر پاکستان آگیا اور اس نے یہیں
رہنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ساجدہ نے بھی سول ایوی ایشن میں بطور اسسٹنٹ
ائير کنٹرول نوکری اختیار کر لی- |
|
ایوب کی واپسی اور ساجدہ پر ظلم |
کمزور معاشی مواقعوں کے سبب کچھ عرصے بعد ہی ایوب کو واپس آسٹریلیا جانا
پڑا جہاں سے وہ نوکری کے لیے واپس سعودیہ بحرین چلا گیا- لیکن اس بار وہ
اکیلا گیا اور بچے اور بیوی اپنے والد کے حوالے کر کے گیا- |
|
ساجدہ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ سرگودھا جیسے چھوٹے شہر میں اس کے بچے بہتر
تعلیم حاصل نہیں کر پائيں گے اس وجہ سے اس نے اپنے شوہر سے یہ مطالبہ کیا
کہ اس کو واپس بلا لیں- مگر اس کے سسرال والوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اور
انہوں نے اس کو تشدد کا کئی بار نشانہ بنایا لیکن ایوب نے ساجدہ کی کسی بھی
شکایت پر کان نہیں دھرا اور اس کو اپنے ماں باپ کے ساتھ گزارا کرنے کا کہا- |
|
|
|
ساجدہ کے والدین |
ساجدہ کے والدین نے ان حالات میں کئی بار اس کو کہا کہ
وہ سسرال چھوڑ کر ان کے پاس آجائے جب کہ اس کا شوہر بھی یہاں نہیں ہے تو وہ
اس ظلم اور مارپیٹ سے بچنے کے لیے اپنے میکے آجائے مگر اس نے اپنے بچوں کی
خاطر میکے جانے سے انکار کر دیا- |
|
12 جون 2022 کی خوفناک
دوپہر |
ساجدہ کے والد شیر محمد کے مطابق بارہ جون کی دوپہر جب
وہ ساجدہ سے ملنے کے لیے اس کے گھر گئے تو اس کے گھر کا مین گیٹ کھلا ہوا
تھا- دوپہر پونے دو بجے کا وقت تھا کھلے گیٹ کو دیکھ کر وہ گھر میں داخل ہو
گئے اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر ساجدہ کے کمرے کی طرف بڑھے تو انہیں وہاں سے
ساجدہ کے سسر کے زور زور سے چلانے کی آوازیں آنا شروع ہو گئيں- |
|
انہوں نے کمرے میں دیکھا کہ ساجدہ ایک کرسی پر بیٹھی ہے
اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے ہیں اور منہ میں روئی ٹھنسی ہوئی ہے
تاکہ وہ آواز نہ نکال سکے جب کہ اس کے سسر ہاتھ میں کلہاڑی لیے اس کو ڈرا
دھمکا رہے تھے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے- |
|
ساجدہ کے والد کو آتے دیکھ کر اس کے سسر نے ان کو بھی
جان سے مارنے کی دھمکی دی اور خاموشی سے کھڑے رہنے کا کہا- |
|
مگر اس کے بعد یک دم ساجدہ کے سسر نے کلہاڑی کے وار کر
کے اس کے والد کے سامنے اس کا سر تن سے جدا کر دیا ایک باپ کے سامنے اس کی
بیٹی کی گردن پر کلہاڑی کے وار کر کے اس کو اس طرح اذیت دے کر مار دینا ظلم
کی انتہا تھی بلکہ ایک روح کو دھلا دینے والا واقعہ تھا- |
|
پولیس کی تحقیقات |
پولیس نے ساجدہ کے والد کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر
لی ہے اور ساجدہ کے سسر کو گرفتار بھی کر لیا ہے اور لاش کو قبضے میں لے
لیا- تاہم ساجدہ کی ساس اور دو دوسرے رشتے دار ابھی بھی مفرور ہیں اور ان
کی تلاش جاری ہے- |
|
آسٹریلین سفارتخانے کا
مطالبہ |
چونکہ ساجدہ ایک آسٹریلین شہری تھیں اس وجہ سے آسٹریلین
سفارتخانے نے بھی رابطہ کیا ہے اور حکام سے درخواست کی ہے کہ اس سارے
معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے |
|