#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالذاریات ، اٰیت 47 تا 60
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
السماء
بنینٰھا باید
و انا لموسعون
47 والارض فرشنٰہا
فنعم المٰھدون 48 ففروا الی
اللہ انی لکم منه نذیر مبین 50 و لا
تجعلوا مع اللہ الٰھا اٰخر انی لکم منه نذیر
مبین 51 کذٰلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول
الّا قالوا ساحر او مجنون 52 اتواصوبهٖ بل ھم قوم طاغون
53 فتول عنھم فما انت بملوم 54 وذکر فان الذکرٰی تنفع المؤمنین
55 و ما خلقت الجن والانس الّا لیعبدون 56 ما ارید منہم من رزق و ما
ارید ان یطعمون 57 ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوة المتین 58 فان للذین ظلموا
ذنوبا مثل ذنوب اصحٰبھم فلا یستعجلون 58 فویل الذین کفروا من یومھم الذی
یوعدون 60
اے ہمارے رسُول ! اِس بیکراں آسمان کو ہم نے اپنی قُوت سے ایک وُسعت میں
پھیلایا ہواہے تو اِس زمین کو بھی ہم نے اپنی قُدرت سے ایک بچھونے کی طرح
بچھایا ہے اور ہم نے اپنے عالَم میں آسمان و زمین کے اِس جوڑے کی طرح ہر
ایک چیز کا ایک ایک جوڑا بنایا ہوا ہے اِس لیۓ آپ اہلِ زمین کو بتادیں کہ
تُم جس قدر جلدی رجوع کر سکو اُسی قدر جلدی اللہ کے اُس فرمان کی طرف رجوع
کرو جس فرمان کی طرف عالَم کی ہر ایک چیز رجوع کیۓ ہوۓ ہے اور عالَم و اہلِ
عالَم کو دیۓ گۓ اُس کے مِن جُملہ فرمانوں میں سب سے پہلا عالمی فرمان یہ
ہے کہ تُم اللہ کی ذات کے ساتھ کسی دُوسری ذات کو دُوسرا حاکم کبھی بھی نہ
بنانا ، جس طرح اِس وقت میں تُم کو شرک سے ڈرا رہا ہوں اور توحید کی طرف
بُلا رہا ہوں اسی طرح مُجھ سے پہلے بھی اللہ کے تمام پہلے اَنبیاء و رُسل
نے انسان کو شرک سے اسی طرح ڈرایا ہے اور توحید کی طرف اسی طرح بُلایا ہے
لیکن ہر زمین اور ہر زمانے کے اکثر انسانوں نے اُن اَنبیاء و رُسل کو
جادُوگر اور جنُونی کہہ کر اُن کی ہر نسل نے اُن کی دعوت کو اسی طرح
ٹُھکرایا ہے کہ جس طرح اُن کی ہر نسل نے اپنی ہر نسل کو اُن پر بُہتان
لگانے اور اُن سے بھاگ جانے کی وصیت کر رکھی ہو لیکن اِس کی اصل وجہ یہ
نہیں تھی کہ اُن کی تعلیم میں کوئی کمی رہ گئی تھی بلکہ اِس کی اصل وجہ اُن
کی وہ سرکشی تھی جس پر میرے اَنبیاء و رُسل نے اُن کو ملامت کرنے کے بجاۓ
اُن کو میری فرماں برداری کی یہی ایک نصیحت کی تھی کہ میں نے نظر میں آنے
والی اور نظر میں نہ آنے والی اپنی کسی مخلق کو بھی اپنے کمانے کھانے کے
لیۓ پیدا نہیں کیا ہے بلکہ میں نے اپنی ہر ایک مخلوق کو اِس مقصد کے لیۓ
پیدا کیا ہے کہ وہ میری میری تابع داری میں رہے اور میں اپنی اِس فرماں
بردار مخلوق کے ساتھ اپنی اُس نافرمان مخلوق کو بھی اُس کی عُجلت طلبی کے
بغیر خود ہی کھلاتا پلاتا رہوں گا لیکن جن لوگوں نے میرے اِس وعدے کے با
وصف بھی میرے یومِ حساب کا انکار کیا ہے اُن لوگوں نے اپنے اُس یومِ حساب
کے لیۓ اپنی خرابی کی خود ہی ایک بُنیاد رکھ دی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا اِفتتاحِ کلام اعتقادِ توحید و اعتمادِ آخرت کے جس عظیم الشان
مضمون سے ہوا تھا اِس سُورت کا اِختتمامِ کلام بھی اعتقادِ توحید و اعتمادِ
آخرت کے اُسی عظیم الشان مضمون پر ہو رہا ہے ، اِس سُورت میں اعتقادِ توحید
و اعتمادِ آخرت کے اِس ایک بڑے مضمون میں جو تین بڑے مضامین بیان کیۓ گۓ
ہیں اُن تین بڑے مضامین میں پہلا بڑا مضمون خالقِ عالَم کا وہ عظیم عالَم
ہے جو عظیم عالَم ایک بیکراں وقت و ایک بیکراں توانائی اور ایک بیکراں خلا
کے اُن اَجزاۓ ثلاثہ پر مُشتمل ہے جن اَجزاۓ ثلاثہ کا ایک مظہرِ کامل یہی
بیکراں خلا ہے جس بیکراں خلا کو اللہ تعالٰی نے بذاتِ خود اپنی قُدرتِ
کاملہ سے بنایا ہے اور اِس طرح بنایا ہے کہ اِس بیکراں خلا کے درمیان وہ
اَربوں کھربوں سُوج و چاند اور وہ اَربوں کھربوں ستارے و سیارے اپنے اپنے
ایک مُفرد مرکز سے مُتزوج ہو ہو کر اپنے اپنے ایک مُتزوج مرکز کی طرف بڑھ
رہے ہیں ، اِس بڑے مضمون کا دُوسرا بڑا مضمون یہ ہے کہ اِس عالَم کے جسمانی
طور پر بڑھنے کا دار و مدار خالقِ عالَم کے اُس قانُونِ تزویج پر ہے جس
قانُونِ تزویج کے مطابق خلا میں یہ سارے کے سارے سُورج و چاند اور یہ سارے
کے سارے ستارے و سیارے مُتزوج دَر مُتزوج ہو کر روزِ اَوّل سے لے کر اَب تک
اور اَب سے لے کر یومِ اَبد تک ہر لَمحہ و ہر آن اپنے جسمانی حُجم کے ساتھ
بھی اپنے اَطراف میں مُسلسل بڑھ رہے ہیں اور اپنی حرکت و رفتار کے ساتھ بھی
اپنے اَزلی مَخرج سے اپنے ابدی مرکز کی طرف اِسی طرح مُسلسل آگے سے آگے بڑھ
رہے ہیں جس طرح تُمہارے یہ ماہ و اَیّام ، تُمہارے یہ صُبح و شام اور
تُمہارے یہ نر و مادہ کے گام دَر گام مُتزوج قافلے مُسلسل آگے سے آگے بڑھتے
ہوۓ عالَم کے ساتھ مُسلسل آگے سے آگے بڑھ رہے ہیں ، اِس بڑے مضمون کا تیسرا
بڑا مضمون عالَم و اہلِ عالَم کے اِس سفر کا وہ عظیم الشان مقصد ہے جس عظیم
الشان مقصد کے لیۓ یہ سارے عالَم و سارے اہلِ عالَم اُس حرکت و عمل میں
مصروف ہیں جو حرکت و عمل اُن کو آگے سے آگے بڑھا رہی ہے اور وہ عظیم الشان
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا یہ عالَم اور اِس عالَم کی ہر دیدہ و نادیدہ
مخلوق کا ہر فرد اللہ تعالٰی کے ہر فرمان کی ہر لَمحہ و ہر آن تابع داری
کرے اور کرتا رہے ، قُرآنِ کریم نے اپنی اِس فرمان برداری کے اِس عمل کے
لیۓ جمع مذکر غائب فعل مضارع معروف کا جو صیغہ { یعبدون } استعمال کیا ہے
اُس کا واحد مصدر وہ { العبد } ہے جس { العبد } کو قُرآن نے سُورَةُالبقرة
کی اٰیت 178 میں { الحُر } کے مقابلے میں ایک جنسِ مُتضاد کے طور پر لاکر
اِس کا معنٰی اللہ تعالٰی کا وہ خاص غلام مُتعین کیا ہے جو خاص غلام اللہ
تعالٰی کے سوا کسی کا اور کا غلام نہیں ہوتا اور یہ خاص غلام ہر وقت اللہ
تعالٰی کے ہر ایک حُکم کو بر وقت بجالانے کا پابند ہوتا ہے لیکن اہلِ روایت
نے اِس { العبد } کو اپنے روایتی نماز و روزے اور اپنے روایتی حج و زکوٰة
کی اُس { عبدیت } کے ساتھ جوڑا ہوا ہے جس عبدیت کا حاصل اللہ کی کامل غلامی
نہیں ہے بلکہ انسانی نفس کی پُوجا پاٹ کی وہ چند روایتی رسُوم قیُود ہیں جن
روایتی رسُوم و قیُود کو انسان نے اپنے روایتی شوقِ بندگی کے نام پر اختیار
کر رکھا ہے اور اُس کے نزدیک اُس کی اختیار کردہ پُوجا پاٹ کی یہی شکل اللہ
تعالٰی کی کامل غلامی ہے حالانکہ یہ اللہ تعالٰی کی غلامی نہیں ہے بلکہ
انسان کے نفسِ اَمارہ کی غلامی ہے جبکہ اعتقادِ توحید و اعتمادِ آخرت کے
اِس مضمون میں انسان کو جو حقیقی و حتمی حُکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جس
طرح سارے سُورج و چاند ، سارے ثوابت و سیار ، سارے کوہ و اَشجار ، سارے
دریا و سمندر اور سارے آب و ہوا کے عالمی مظاہر اللہ تعالٰی کی کامل غلامی
میں رہ کر اللہ تعالٰی کے جُملہ اَحکام بجا لا رہے ہیں اسی طرح انسان بھی
اللہ تعالٰی کی کامل غلامی میں آکر اللہ تعالٰی کے جُملہ اَحکام بجا لاۓ
تاکہ وہ نجات دُنیا و عُقبٰی کا حق دار بن جاۓ !!
|