ابھرتی ہوئی معیشتوں کا اکٹھ

ابھی حال ہی میں چین کی میزبانی میں برکس سمٹ کا ورچوئل انعقاد کیا گیا جسے ترقی پزیر ممالک یا ابھرتی ہوئی معیشتوں کی نمائندہ سرگرمی قرار دیا جا سکتا ہے۔برکس میکانزم میں بنیادی طور پر پانچ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتیں چین ، برازیل، روس، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اس کثیر الجہتی فورم کا قیام 2006 میں عمل میں لایا گیا تھا اور اپنے قیام کے بعد سے گزشتہ 16 سالوں میں برکس نے تعاون کے اعتبار سے کئی عمدہ باب چھوڑے ہیں اور بین الاقوامی امور میں بھی عالمی سطح پر ایک مثبت، مستحکم اور تعمیری قوت بن چکا ہے۔ برکس ممالک عالمی معیشت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ اور عالمی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ ہیں۔اسی باعث ماہرین کے نزدیک برکس تعاون کا طریقہ کار ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کی ترقی کی توقعات کے عین مطابق ہے ۔

رواں برس برکس سمٹ کا موضوع رہا "اعلیٰ معیار کی برکس شراکت داری، عالمی ترقی کے نئے دور کا آغاز"۔یہ سمٹ اس باعث بھی اہم رہی کہ دنیا کو عالمگیر وبا کے بد ترین اثرات کے ساتھ ساتھ یوکرین تنازع کا بھی سامنا ہے جسے عالمی معیشت اور سلامتی کی صورتحال کے لیے ایک سنگین چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ویسے بھی برکس تعاون کا مقصد ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے اور اس وقت عالمی اقتصادی بحالی کو وبائی صورتحال اور تیزی سے رونما ہوتی ہوئی بڑی تبدیلیوں کے درمیان متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے جو ایک صدی میں نظر نہیں آئے ہیں۔ایسے میں ترقی پذیر ممالک کے طور پر، برکس کے ممبران ترقی اور ترقیاتی معاونت اور لوگوں کے معاش کو بہتر بنانے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔یہ پہلو بھی اہم ہے کہ برکس ممبران اپنے عالمی اثر و رسوخ کے ساتھ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے طور پر، عالمی اقتصادی ترقی کا ایک اہم انجن بن چکے ہیں۔

سمٹ کے دوران برکس کے میزبان ملک کی حیثیت سے چینی صدر شی جن پھنگ کا خطاب اہم رہا جس میں انہوں نے عالمی مسائل کی بنیادی وجوہات اور ان سے نمٹنے کا کلیہ پیش کیا۔انہوں نے گزشتہ برس کے چیلنجز کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اقتصادی بحالی مشکل صورتحال سے دوچار رہی اور امن و سلامتی کے مسائل زیادہ نمایاں ہو چکے ہیں۔ سنگین اور پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے برکس ممالک کھلے پن، جامعیت اور باہمی سودمند تعاون کے "برکس جذبے" پر کاربند رہے ہیں، یکجہتی اور تعاون کو مضبوط کیا گیا ہے، اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے گئے ہیں۔شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ اہم ابھرتی ہوئی منڈیوں اور بڑے ترقی پذیر ممالک کے طور پر، برکس ممالک کو اپنی ذمہ داریوں اور اقدامات میں "بہادری" کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور دنیا میں مثبت، مستحکم اور تعمیری قوتوں کو داخل کرنا چاہیے۔

چین کے مضبوط موقف کو مزید اجاگر کرتے ہوئے صدر شی کے خطاب میں عالمی تنازعات اور مسائل سے نمٹنے کے لیے چار اہم تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔اول، انصاف اور شفافیت کے لیے آواز اٹھانی چاہیے، بین الاقوامی برادری میں حقیقی کثیرالجہتی کو فروغ دینا چاہیے، اقوام متحدہ کے تحت بین الاقوامی نظام اور بین الاقوامی قانون پر مبنی عالمی نظام کو برقرار رکھنا چاہیے، سرد جنگ کی ذہنیت اور گروہی تصادم کو ترک کرنا چاہیے، یکطرفہ پابندیوں کی مخالفت کرنی چاہیے۔

دوم، وبا کو شکست دینے کے لیے اپنے اعتماد کو مضبوط کرنا چاہیے، عوام اور انسانی زندگی کے لیے ذمہ دارانہ رویے اپناتے ہوئے وبا کی روک تھام اور کنٹرول کا ٹھوس انتظام کرنا چاہیے ، انسداد وبا کے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے، اور مشترکہ طور پر انسانی زندگی اور صحت کا تحفظ کرنا چاہیے۔سوم ، اقتصادی بحالی کے لیے ہم آہنگی کو یکجا کرنا چاہیے، میکرو پالیسی کوآرڈینیشن کو مضبوط کرنا چاہیے، صنعتی اور سپلائی چینز کے تحفظ اور ہمواری کو یقینی بنانا چاہیے، ایک کھلی عالمی معیشت کی تعمیر، عالمی ترقی کو درپیش بڑے خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنا چاہیے ، اور لچکدار اقتصادی ترقی کے لیے مزید جامعیت کی جستجو کرنی چاہیے۔چوتھا، پائیدار ترقی کو فروغ دینا چاہیے، عوام پر مبنی ترقی کے فلسفے پر عمل کرنا چاہیے، غربت میں کمی، تحفظ خوراک، تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا چاہیے، اور پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 ایجنڈے کے نفاذ کو فروغ دیتے ہوئے سبز اور صحت مند عالمی ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالیہ برکس سمٹ سے ایک جانب دنیا کو یہ اہم پیغام دیا گیا ہے کہ برکس تعاون کا مقصد سلامتی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ برکس ممالک اپنے معاشی حجم، زمینی رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے عالمی استحکام کا ایک اہم ستون بن چکے ہیں اور سلامتی کے خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرتے ہوئے حقیقی کثیرالجہتی پر عمل پیرا ہیں۔دوسری جانب ، برکس کی صورت میں ترقی پذیر ممالک کو تعاون اور ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے، اور انہیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ وہ بھی عالمی گورننس اور بین الاقوامی آرڈر میں مساوی بنیادوں پر شریک ہو سکتے ہیں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 617300 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More