ٹریکنگ سسٹم سے بھی غائب، روس کے ارب پتی افراد کی لگژری کشتیاں اب کہاں کھڑی ہیں؟ چونکا دینے والے انکشافات

image
 
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے روس کے ارب پتی افراد (اولیگارک) جب بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں آئے تو ان کی ملکیت کی مختلف لگژری کشتیاں بین الاقوامی میری ٹائم ٹریکنگ سسٹم سے غائب ہو گئیں تھیں لیکن سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی سیٹلائٹ تصاویر اور ان دیگر تصاویر نے ان کے چھپنے کے مقامات کو ظاہر کیا ہے۔
 
یہ اقدام اقوام متحدہ کے سمندری زندگی کی حفاظت کے کنونشن کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس کنونشن میں کہا گیا ہے کہ بڑے بحری جہازوں اور لگژری کشتیوں کو ہر وقت اپنا خودکار شناختی نظام آن رکھنا چاہیے، جب تک کہ جہاز اور عملے کو قزاقوں سے خطرہ نہ ہو۔
 
روس کے ارب پتی افراد کی ان لگژری کشتیوں کے ٹھکانوں کا اب تک کچھ علم نہیں لیکن بی بی سی نے ان میں سے چار لگژری کشتیوں کے مقام کا سراغ لگانے کے لیے عوامی سطح پر دستیاب سیٹلائٹ تصاویر اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے۔
 
بحری امور سے متعلق ڈیٹا اور معلومات فراہم کرنے والی ایک کمپنی ویسل ویلیو کے ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ ان لگژری کشیتوں کی جانب سے اس طویل عرصے کے دوران کوئی سگنل نہیں دیا گیا جبکہ پہلے یہ کشتیاں عام طور پر ہر چند منٹ میں سگنل دیتی تھیں۔‘
 
ان میں سے تین لگژری کشتیوں نے اچانک خاموش ہونے سے قبل رواں برس روزانہ کی بنیاد پر اپنے مقام کے متعلق ڈیٹا شیئر کیا۔ حتیٰ کہ جب وہ کسی بندرگاہ پر بھی موجود تھی مگر بعد ازاں ان میں سے دو کشتیوں نے اپنے خود کار شناختی نظام کو بند کر کے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا سفر خاموشی سے طے کیا۔
 
رواں برس مارچ اور اپریل میں امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے روسی ارب پتی افراد پر پابندیاں عائد کرنے کے نتیجے میں ان کی اربوں ڈالر مالیت کی لگژری کشتیوں کو پکڑا جا رہا تھا، اسی دوران ان کشتیوں نے خود کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا مگر اب ان کے ٹھکانوں کا علم ہو گیا ہے۔
 
روسی ارب پتی تیل کے تاجر ویگٹ الیکپیروف کی گیلاکٹیکا سپر نوا نامی لگژری کشتی
اوپر تصویر میں دکھائی دینے والی اس 70 میٹر لمبی لگژری کشتی میں 12 افراد کو ٹھہرانے کی جگہ ہے۔ اس میں چھ پرتعیش کمرے ہیں، چھ میٹر لمبائی کا شیشے کی سطح والا سوئمنگ پول، آبشار اور ایک ہیلی پیڈ ہے۔
 
80 ملین ڈالرز مالیت کی اس لگژری کشتی نے بین الاقوامی بحری ٹریکنک سسٹم میں آخری بار اپنی پوزیشن دو مارچ کو ریکارڈ کروائی تھی، جب یہ مونٹی نیگرو کے ساحل سے کچھ دوری پر تھی۔
 
اس نے اپنے بحری سفر کا آغاز شمالی سپین میں باسلونا سے 26 فروری کو یوکرین پر حملے کے دو دن بعد کیا تھا۔ اس وقت تک نہ یہ لگژری کشتی اور نہ ہی اس کے مالک اور روس کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی لیوک آئل کے بانی الیکپیروف پابندیوں کی زد میں تھے۔
 
لیکن ہسپانوی حکام نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ منسلک کئی ارب پتی افراد پر عائد پابندیوں کے بعد ان کی لگژری کشتیوں کو ضبط کیا تھا۔
 
الیکپیروف پر اپریل میں برطانیہ اور آسٹریلیا نے پابندیاں عائد کی تھیں، جس کے فوراً بعد انھوں نے لیوک آئل کمپنی کے صدر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ بعد میں کینیڈا نے بھی انھیں پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
 
گالیکٹکا سپر نوا نامی اس لگژری کشتی نے مونٹی نیگرو سے جنوب مشرق کی جانب 1500 کلومیٹر سے زائد کا سفر بنا کسی سگنل کے طے کیا تھا۔ انسٹاگرام پر موجود مختلف پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہ ترکی کے شہر گوچک کی آزور مرینا بندرگاہ پر موجود ہے اور وہ یہاں نو مئی کو پہنچی تھی۔
 
image
 
جیسا کہ ترکی روس پر بین الاقوامی پابندیوں کے سلسلے میں تعاون نہیں کر رہا تو یہ اس کے لیے ایک محفوظ مقام ہے۔
 
ترکی کی لگژری کشتیوں کے کاروبار سے منسلک ایک ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ’روسی ارب پتی افراد پر پابندیوں کی وجہ سے اس وقت ترکی میں پہلے کی نسبت معمول سے زیادہ لگژری کشتیاں موجود ہیں۔‘
 
’چیلسی فٹبال کلب کے سابق مالک رومن ابرامووچ کی دونوں لگژری کشتیاں کافی عرصے سے یہاں کھڑی ہیں اور شاید وہ مزید طویل عرصے تک یہاں موجود رہیں کیونکہ ان کے پاس کہیں اور جانے کی کوئی جگہ نہیں۔‘
 
روسی ارب پتی سرگئی گیلٹسکی کی کوائنٹم بلیو نامی لگژری کشتی
کوائنٹم بلیو، گالیکٹکا سپر نوا سے بھی بڑی لگژری کشتی ہے اور اس نے اس سے زیادہ 1700 کلومیٹر کا سفر بنا کوئی سگنل دیے خاموشی سے طے کیا۔
 
تقریباً ایک چوتھائی بلین ڈالر مالیت کی یہ کشتی 104 میٹر لمبی ہے اور اس میں ایک مووی تھیٹر، بیوٹی سیلون اور ہیلی پیڈ کے ساتھ 40 افراد کا عملہ ہے۔
 
اگرچہ سرگئی گیلٹسکی پر پابندیاں عائد نہیں کی گئی یں مگر اس کشتی کو عارضی طور پر مارچ میں موناکو کی بندرگاہ چھوڑنے سے روک دیا گیا تھا لیکن جب اسے چھوڑا گیا تو یہ سفر کرتی ہوئی بحیرہ روم کے پار چلی گئی اور 16 مارچ کو نہر سوئز میں داخل ہوئی۔
 
جزیرہ نما عرب کے قریب سفر کرتے ہوئے اس کے ٹریکنگ سسٹم نے 22 مارچ کو یمن اور عمان کی سرحد کے قریب سے سگنل بھیجنا بند کر دیا تھا۔
 
اس کشتی کے تازہ ترین مقام کا انکشاف جبرالٹر یاچنگ فیس بک پیج پر ایک کونٹربیوٹر نے کیا۔
 
image
 
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بحری صنعت میں کام کرنے والے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ چھٹیوں پر دبئی میں تھے اور وہ دبئی کے امیر شیخ محمد بن راشد المکتوم کی لگژری کشتی کی تصویر لینے پورٹ راشد پر گئے تھے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی وہ بندرگاہ کے ڈاک پر پہنچے تو انھیں سکیورٹی گارڈ کی جانب سے روکا گیا۔
 
’مجھے وہاں موجود شخص نے جانے کے لیے کہا اور تصاویر کھینچنے سے منع کیا، میں تو اس کے قریب بھی نہیں جا سکا۔‘
 
لیکن قریب ہی موجود کروز جہاز کیو ای ٹو، جو اب ایک ہوٹل اور سیاحوں کی دلچسپی کا مقام ہے، کے سب سے اوپر والے حصے میں جاتے ہوئے انھیں حیرانی ہوئی کہ وہاں صرف دبئی کے امیر شیخ راشد المکتوم کی لگژری کشتی ہی نہیں بلکہ کوائنم بلیو اور ایک اور روسی ارب پتی اندرے سکوچ کی لگژری کشتی میڈام گو بھی کھڑی دکھائی دی۔
 
بی بی سی کے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ کوانٹم بلیو کا ٹریکنگ سسٹم جان بوجھ کر بند کر دیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا تھا ’یقینی طور پر۔ تقریباً تمام روسی لگژری کشتیوں نے اپنا خودکار ٹریکنک سسٹم بند کر دیا ہے۔ بنیادی طور پر وہ کشتیوں کے خودکار شناختی نظام (آے آئی ایس) کو چھپنے کے لیے بندرگاہ میں جانے سے پہلے بند کر دیتے ہیں۔‘
 
اس سے قبل کوانٹم بلیو ڈاک پر موجود رہتے ہوئے بھی مسلسل سگنل بھیجتی تھی۔
 
image
 
یورپی سپیس ایجنسی کی جانب سے کھینچی جانے والی اور عوامی سطح پر موجود سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوانٹم بلیو کشتی 14 سے 29 مارچ کے درمیان دبئی پہنچی تھی اور اب تک وہی موجود ہے۔
 
اگر گیلٹسکی پر مستقبل میں کوئی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو دبئی کا امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سے جائیداد ضبط کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں، اس لیے کوانٹم بلیو کو یہاں کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
 
روسی نیوز ویب سائٹ آر ٹی کے علاوہ فوربس، فنانشل ٹائمز اور دیگر مغربی اخباروں نے کوانٹم بلیو کی ملکیت کو گیلٹسکی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔
 
image
 
ارب پتی صنعت کار اولگ ڈیریپاسکا سے منسلک لگژری کشتی کلیو
اس 65 ملین ڈالر مالیت کی 73 میٹر لمبی لگژری کشتی نے محفوظ بندگارہ کی تلاش میں کسی بھی دوسری کشتی سے زیادہ سفر کیا۔
 
کلیو نے سری لنکا کی گالے بندرگاہ کو دس فروری کو چھوڑا تھا اور مالدیپ کی جانب سفر شروع کیا تھا اور یہاں سے اس نے مالدیپ واپس آنے سے قبل شمال مشرق کی جانب خلیج کا سفر شروع کیا۔
 
اس کے بعد یہ بحیرہ احمر کا سفر کرتے ہوئے سوئز کنال سے گزری اور شمال کی جانب چل نکلی۔ اس کے خودکار شناختی نظام نے 18 اپریل کو بحیئرہ اسود میں باسفورس سے گزرتے ہوئے سگنل دینا بند کر دیا تھا۔
 
اس کے بعد اس نے روسی بندرگاہ ادلر کی جانب تقریباً نو سو کلومیٹر کا سفر کیا۔ سیٹلائٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ یہاں 22 اپریل کو پہنچی تھی اور اب تک وہی موجود ہے۔
 
image
 
اس کے متعلق ٹیلی گرام ایپ پر مختلف پوسٹس بھی موجود ہیں
 
ارب پتی روسی صنعت کار ڈیریپاسکا جن کے اثاثوں کی کل مالیت ساڑھے تین ارب ڈالر ہے، کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ کلیو کے مالک نہیں۔
 
انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن نے اس کشتی کی ملکیت کے حوالے سے ویلے فورس نامی کمپنی کو اس کی مالک کے طور پر درج کر رکھا ہے جبکہ ایک برطانوی یاچنک کمپنی کو اس کے رابطہ کار کے طور پر درج کیا ہے۔
 
اس کمپنی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جس وقت کلیو کے خود کار شناختی نظام کے سگنل بند ہوئے تھے وہ تب بھی اس کے ساتھ منسلک نہیں تھی اور اب بھی اس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔
 
image
 
امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا نے ارب پتی صنعت کار ڈیریپاسکا پر صدر پوتن کے ساتھ قریبی روابط ہونے کے الزام پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
 
ان کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ پابندیاں سراسر غلط ہیں اور ان کا بے بنیاد اور غلط الزامات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ڈیریپاسکا کبھی بھی سیاست میں حصہ دار نہیں رہے اور انھوں نے اس سے یا کسی بھی عسکری تنازعے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا۔‘
 
image
 
صدر پوتن سے منسلک لگژری کشتی گریس فل
82 میٹر لمبی لگژری کشتی گریس فل نے سات فروری کو ہیمبرگ کی بندرگاہ کو چھوڑا تھا جہاں اس کی مرمت کی جا رہی تھی۔
 
یہ یوکرین پر ممکنہ حملے سے قبل ہی تناؤ والے حالات میں روسی پانیوں کی جانب سفر کرتے ہوئے کالینگارڈ کی بندرگاہ پہنچی تھی۔
 
سمندر میں تحفظ کے اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت، بحری جہاز ڈاک میں رہتے ہوئے اپنے خود کار شناختی نظام کو بند کر سکتے ہیں لیکن گریس فل کے سگنلز اس کے کیلیننگراڈ پہنچنے کے دوران آخری لمحات کے دوران غائب ہوئے تھے۔
 
image
 
روسی سوشل میڈیا سائٹ، اوڈنوکلاسنیکی، اور ٹیلی گرام میسجنگ سروس پر تصاویر نے ابتدائی طور پر گریس فل کو اس مقام پر دکھایا جو دریائے پریگولیا میں واقع ایک مقام پر لنگرانداز تھی۔
 
بعد ازاں گریس فل ینٹر شپ یارڈ سے تعلق رکھنے والی خشک ڈاک میں کھڑی دکھائی دی۔ یورپی خلائی ایجنسی کی سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لگژری کشتی یہاں 16 مارچ کو پہنچی اور اب بھی وہی موجود ہے۔
 
صدر پوتن کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم اس لگژری کشتی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہم آپ کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدر پوتن کا اس یا کسی اور لگژری کشتی سے کوئی تعلق نہیں۔‘
 
تاہم لگژری کشتی گریس فل کو امریکی وزارت خزانہ نے ایک بیان میں روسی صدر سے منسلک کیا اور اسے پابندی شدہ اثاثوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
 
اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’صدر پوتن نے متعدد بار اس کشتی میں سفر کیا۔‘
 
انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے پاس گریس فل کی درج ملکیت میں جے ایس سی آرگیومنٹ نامی ایک کمپنی موجود ہے۔ جس کے متعلق بی بی سی روشئین نے کھوج لگائی ہے کہ اس کا تعلق بحیرہ اسود کے کنارے موجود ایک اراضی سے ہے جسے پوتن کا محل کہا جاتا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: