دعا زہرہ کیس۔۔۔ کہانی وہ ہے نہیں جو نظر آرہی ہے، دو پہلو جو آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں

image
 
وہ گھر سے نکلی نہ واپس آنے کے لئے ۔۔۔۔ ظہیر اس کی پسند تھا وہ اس کی خاطر کچھ بھی کر سکتی تھی۔ نہ وہ کبھی اس سے ملی تھی نہ کوئی قسمیں وعدے ہوئے ظہیر نے گھر چھوڑنے کو کہا اور وہ اپنے ماں باپ کا گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ آئی۔ نہ صرف گھر وہ تو اس کی خاطر اپنا شہر بھی چھوڑ آئی تھی۔ شاید کل وہ ملک بھی چھوڑ جائے۔ محبت کی یہ انوکھی داستان آجکل ہمارے میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ جی ہاں دعا زہرہ کیس جو آجکل ہمارے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس کیس کے دو پہلو ہیں۔ ایک ماں باپ کی نظر سے دوسرا دعا ظہیر کی نظر سے۔ آئیے ان پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
 
دعا جب گھر سے بغیر بتائے چلی جاتی ہے تو اس کے والدین اغواء کا خدشہ ظاہر کر کے میڈیا کے ذریعے اپنی بیٹی کی بازیابی کے لئے ہر ممکن کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ کسی طرح ان کی بیٹی بازیاب ہو جائے۔ پتا چلتا ہے بچی اپنی مرضی سے گئی ہے تو والدین صرف اس سے بات کرنے کو ترستے ہیں۔
 
عموماً ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے کیسز میں والدین بچوں سے ناتا توڑ دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں بدنامی سے بچ سکیں- لیکن دعا کے والدین تو ہر صورت میں اپنی بچی سے ملنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ کہانی جو نظر آرہی وہ ہے نہیں- ان کی بیٹی کسی بڑے جال میں پھنس چکی ہے انھیں ڈر ہے کہ یہ کسی گینگ وغیرہ کی کہانی ہے- جس کے تحت لڑکیوں کو بیرون ملک لے جا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا سچ ہے یہ تو رب جانتا ہے۔ والدین ہیں ان کی تکلیف کو پورا پاکستان سمجھ رہا ہے اور شاید ساری عوام کو اس کیس کے پس منظر میں اپنی اولاد کی فکر ہے کہ خدانخواستہ یہ طریقے عام ہو گئے تو والدین اپنی اولاد کو کس طرح بچائیں گے۔
 
image
 
اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن دعا کے والدین نے معاشرے کو بچانے کی بھی ایک طرح سے ذمہ داری لے لی ہے۔ لوگوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔
 
اب دوسرا پہلو دعا کی جانب سے ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ ظہیر سے محبت کرتی ہے والدین راضی نہیں تھے تو اس نے بھاگ کر شادی کر لی۔ پسند کی شادی کرنا کوئی گناہ نہیں مذہب میں بھی اس کی اجازت ہے لیکن گھر سے بھاگ کر اور نہ صرف گھر سے شہر سے بھی بھاگ کر شادی کرنا ایک انجان لوگوں پر بھروسہ کرنا شاید یہ سب اس نے ظہیر کی محبت میں کیا وہ ابھی عمر میں کم ہے ہو سکتا ہے ابھی فلموں والی تصوراتی زندگی میں مبتلا ہو۔ اب اس کے والدین اس سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے انٹرویوز میں ماں باپ کی عزت کی دھجیاں اڑاتی ہے۔ ان پر الزامات کی بارش کر دیتی ہے کہ باپ کو قرآن اپنے سر پر رکھ کر قسم کھانی پڑتی ہے کہ وہ حق اور سچ پر ہے۔
 
دعا اپنے والدین کو کہتی ہے کہ وہ جھوٹے ہیں کیا کوئی اولاد کھلے عام اپنے والدین کے لئے ایسے الفاظ استعمال کر سکتی ہیں۔ آخر آج معاشرہ کدھر جا رہا ہے ہمارے معاشرے کی کچھ روایات ہیں۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کو کبھی نہیں پسند کیا جا سکتا۔ ابھی تو وہ عمر میں بہت چھوٹی ہے آجکل تو لڑکیوں میں پڑھنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا رجحان بڑھ رہا ہے لڑکیاں بھی کافی حد تک پریکٹیکل ہو گئی ہیں وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہونا چاہتی ہیں-
 
لیکن دعا سے انٹرویو لینے والی اپنی خبر کو چٹخارے دار بنانے کے لئے اولاد سے کہتی ہے کہ اپنے والدین کی برائی کرو۔ دعا بھی صرف مخصوص لوگوں کو ہی انٹرویو دینے پر راضی ہوتی ہے بہت سے جھول ہیں جو سمجھ سے عاری ہیں۔ دعا اور اس کے والدین دونوں میں سے ایک فریق تو حق پر ہے۔
 
image
 
اس طرح کے بہت کیسز ہوتے رہتے ہیں اور دب جاتے ہیں لیکن جہاں معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کی بات آتی ہے تو ایک خاندان کے افراد اپنے گھر اور خاندان کی عزت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ہم میں سے کوئی نہیں چاہے گا کہ ان کی بیٹیاں گھر سے بھاگ کر شادی کریں- والدین کو بھی اپنی اولاد کی خواہشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی شادی کے فیصلے بروقت کر دینے چاہئیں تاکہ وہ کسی قسم کی پیچیدگیوں سے بچیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: