معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے ناانصافی کے ساتھ نہیں… وہ مجرم خاتون جس کی سزائے موت امریکہ کے جارج بش اور پوپ بھی نہ رکوا سکے

image
 
کارلا فائے ٹکر ایک امریکی شہری تھی جسے 1998 میں ٹیکساس میں ایک ڈکیتی کے دوران دو افراد کو بے دردی سے مارنے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔ وہ 1984 کے بعد سے امریکہ میں اور 1863 کے بعد ٹیکساس میں پھانسی کی سزا پانے والی پہلی خاتون تھیں۔ اس کیس نے میڈیا میں تہلکہ مچا دیا خاص طور پر جب ٹکر نے جیل کے اندر عیسائیت کو فروغ دیا۔ معافی کی التجا کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر وہ ہوشیار ہوتی تو اس نے ایسا گھناؤنا جرم کبھی نہ کیا ہوتا۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عیسائیت نے اسے بدل دیا ہے یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ اگر اس کی سزا میں کمی کی گئی تو وہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں تعمیری حصہ ڈالے گی۔
 
سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں، کارکنوں اور یہاں تک کہ ایک متاثرہ کے بھائی سمیت مختلف اہم حلقوں کی زبردست حمایت کے باوجود رحم کی تمام اپیلیں مسترد کر دی گئیں اور قتل کے 14 سال بعد3 فروری 1998 کی صبح پونے چھ بجے ٹیکساس کی ایک جیل میں 38 سالہ کارلا فائے ٹکر کو ایک مہلک انجکشن کے ذریعے پھانسی دے دی گئی۔
 
کارلافے ٹکر Carla Fe Tukker کوئی اچھے بیک گراؤنڈ سے نہیں تھی بچپن سے لے کر جوانی تک وہ ایک متنازعہ زندگی گزارتی رہی ۔
 
پھر 1983ء کی وہ رات آگئی جب وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر ایک جوڑے سے موٹر سائیکل چھیننے کی کوشش میں جوڑے کو ہلاک کر کے فرار ہو گئے- لیکن چند ہی ہفتوں میں پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا- مقدمہ چلا اور ٹیکساس کی عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنا دی جس کے بعد اپیلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا-
 
image
 
اسی دوران اس کا بوائے فرینڈ بیمار ہوکر جیل میں انتقال کر گیا جس کے بعد وہ تنہا رہ گئی- اس حادثے نے اس کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا اب زیادہ تر وہ روزے سے رہنے لگی اور خدا اور مسیح کے سوا کسی چیز کا نام نہیں لیتی تھی یہاں تک کہ وہ مبلغہ بن گئی۔ پھر اس نے جیل ہی میں شادی کرلی اور تبلیغ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا-
 
اس کی بدلی ہوئی شخصیت کی مہک جب جیل سے باہر پہنچی تو اخبارات کے رپورٹر جیل پر ٹوٹ پڑے اور امریکہ کی معاشرتی زندگی میں بھونچال آگیا یہاں تک کہ پوپ جان پال نے بھی زندگی میں پہلی بار عدالت میں کسی قاتلہ کی سزا معاف کرنے کی درخواست کر دی-
 
سزائے موت سے پندرہ روز قبل جب لیری کنگ جیل میں ٹکر کا انٹرویو کرنے گیا تو دنیا نے سی این این پر ایک مطمئن اور مسرور چہرہ دیکھا جو پورے اطمینان سے ہر سوال کا جواب دے رہا تھا- لیری نے پوچھا " تمھیں موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا"- ٹکر نے مسکرا کر جواب دیا " نہیں! اب مجھے صرف اور صرف موت کا انتظار ہے میں جلد اپنے رب سے ملنا چاہتی ہوں اپنی کھلی آنکھوں سے اس ہستی کا دیدار کرنا چاہتی ہوں جس نے میری ساری شخصیت ہی بدل دی"-
 
انٹرویو نشر ہونے کے دوسرے روز پورے امریکہ نے کہا: " نہیں یہ وہ ٹکر نہیں ہے جس نے دو معصوم شہریوں کو قتل کیا تھا یہ تو ایک فرشتہ ہے جو صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے اور فرشتوں کو سزائے موت دینا انصاف نہیں ظلم ہے"-
 
رحم کی اپیل " ٹیکساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول " کے سامنے پیش ہوئی- 18 رکنی بورڈ نے کیس سننے کی تاریخ دی تو 2 ممبروں نے چھٹی کی درخواست دیدی جبکہ باقی 16 ممبران نے سزا معاف کرنے سے انکار کر دیا- بورڈ کا فیصلہ سن کر عوام سڑکوں پر آگئے اور ٹکر کی درخواست لے کر ٹیکساس کے گورنر " جارج بش " کے پاس پہنچ گئے- امریکہ کے معزز ترین پادری جیسی جیکسن نے بھی ٹکر کی حمایت کر دی- گورنر نے درخواست سنی جیسی جیکسن اور ہجوم سے اظہار ہمدردی کیا لیکن آخر میں یہ کہہ کر معذرت کرلی: " مجھے قانون پر عملدرآمد کرانے کے لئے گورنر بنایا گیا ہے مجرموں کو معاف کرنے کے لئے نہیں اگر یہ جرم فرشتے سے بھی سرزد ہوتا تو میں اسے بھی معاف نہ کرتا"-
 
image
 
موت سے 2 روز قبل جب ٹکر کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ پہنچی تو چیف جسٹس نے یہ فقرے لکھ کر درخواست واپس کر دی: " اگر آج پوری دنیا کہے کہ یہ عورت کارلافے ٹکر نہیں ایک مقدس ہستی ہے تو بھی امریکن قانون میں اس کے لئے کوئی ریلیف نہیں ہے کیونکہ جس عورت نے قتل کرتے ہوئے دو بےگناہ شہریوں کو کوئی رعایت نہیں دی اسے دنیا کا کوئی منصف رعایت نہیں دے سکتا ہم خدا سے پہلے ان دو مقتول کے سامنے جوابدہ ہیں جنہیں اس عورت نے ناحق مار دیا"-
 
*حضور سرور کونینﷺ کا قول ہے" اگر میری بیٹی فاطمه بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا "
اور ساتھ ہی حضرت علی*ؓ کا بھی قول زریں یہاں بیان کرنا ضروری ہے:
" معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں"
 
امریکہ یا اس جیسے دوسرے ممالک بے شک ہزاروں معاشرتی برائیاں اپنے اندر رکھتے ہوں لیکن انصاف ان کے معاشرے کا سب سے مضبوط اور اہم خاصہ ہے جس نے اس معاشرے کی بنیاد کو مستحکم رکھا ہوا ہے ۔ وہاں جس ادارے کے جو کام ہیں وہ ایمانداری سے انجام دے رہے ہیں۔ عدالت کا منصف اور مضبوط ہونا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ ایماندار معاشرے کا انحصار ہی ان کے فیصلوں پر ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں ریاست مدینہ کا نام لینا آسان ہے کیا یہ مغرب میں رہائش پذیر سیاستدان آج کے مغربی منصفانہ نظام جیسا نظام رائج کر سکتے ہیں؟ جب ان معاشروں کی اچھائیوں کی تقلید نہیں کر سکتے تو ریاست مدینہ کا قیام تو بہت دور کی بات ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت سے قطع نظر یہ ایک غور طلب بات ہے زرا سوچئے۔۔۔۔
 
 
YOU MAY ALSO LIKE: