زمین کی گہرائیوں میں چھپا ’ قبرستان‘ جس کا راز آج تک کوئی نہیں جان پایا

image
 
ہمارے نظام شمسی کے ایک عجیب و غریب حصے میں دو اجنبی ’بلوبس‘ یعنی آبلے پائے جاتے ہیں۔ جسامت میں یہ براعظموں جتنے بڑے ہیں اور ان کی بناوٹ ’چٹانوں‘ جیسی نظر آتی ہے۔ ان میں مختلف قسم کی نایاب معدنیات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو اتنا بڑا ہے کہ اس کے اندر دنیا کے تمام سمندروں سے بھی زیادہ پانی موجود ہے۔
 
یہاں کا موسم روزانہ ایک جیسا ہی رہتا ہے، یعنی 1827 ڈگری سینٹی گریڈ اور اس کے بعض حصوں میں سطح زمین کے مقابلے میں 13 لاکھ گنا زیادہ فضائی دباؤ پایا جاتا ہے۔ اس شدید ترین ماحول میں ایٹم بھی مُڑ تُڑ جاتے ہیں اور کئی عام مادے عجیب انداز اختیار کر لیتے ہیں، مثلاً چٹانیں پلاسٹک کی طرح نرم اور لچکدار بن جاتی ہیں جبکہ آکسیجن دھات کی طرح سخت ہو جاتی ہے۔
 
مگر یہ آبلہ نما ساختیں ہمارے نظام شمسی سے الگ کوئی سیارے نہیں بلکہ یہ ہماری زمین ہی ہے، بس یہ کہ سطح سے بہت نیچے زمین کی گہرائی میں یہ کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔
 
یہ کرۂ زمین کی وہ پرت ہے جو اس کے مرکز کے گرد پائی جاتی ہے۔ زیادہ تر ٹھوس حالت میں یہ ایک الگ ہی دنیا ہے۔ یہ ایک ایسا جہاں ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار کھرب ٹن رنگ برنگے ہیرے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی حیران کن معدنیات بھی ہیں جو سطحِ زمین پر موجود ہی نہیں۔
 
اس تہہ میں سب سے زیادہ مقدار میں پائی جانے والی برِجمنائٹ اور ڈیوماؤٹ کی چٹانیں سائسندانوں کے لیے بڑی حد تک ایک معمہ ہیں۔ ان کے بننے کے لیے اسی انتہائی دباؤ کا ہونا ضروری ہے جو زمین کے اندرونی حصے میں پایا جاتا ہے اور اگر انھیں سطح پر لایا جائے تو وہ ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں، بالکل ان مچھلیوں کی طرح جو سمندر کی تہہ میں رہتی ہیں اور اگر انھیں اوپر لایا جائے تو پگھل جاتی ہیں۔
 
ان معدنیات کو اپنی قدرتی حالت میں اسی وقت دیکھا جا سکتا ہے جب یہ کسی ہیرے کے اندر پھنس جانے کے بعد سطح زمین پر آ جاتی ہیں مگر پھر بھی یہ بتایا ناممکن ہے کہ یہ کرسٹل یا بلور زمین کی گہرائیوں میں کیسے لگتے ہوں گے کیونکہ ان کے طبعی خواص ان پر پڑنے والے دباؤ کا بہت زیادہ اثر لیتے ہیں۔
 
اُدھر دور افتادہ ’سمندر‘ میں مائع کا ایک قطرہ بھی نہیں بلکہ یہ اس پانی کا بنا ہوا ہے جو اولیوائن نامی ایک منرل یا معدن میں بند ہے اور یہ بالائی پرت کا 50 فیصد بناتا ہے۔ انتہائی گہرائیوں میں اس کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے۔
 
امریکہ کی میری لینڈ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ویڈرن لیکِک کہتے ہیں کہ ’ان گہرائیوں کے اندر کمیسٹری بالکل بدل جاتی ہے۔ ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ بعض معدنیات زیادہ شفاف بن جاتی ہیں۔‘
 
البتہ یہ زمین کی گہرائی کے اندر پائے جانے والے ’بلوبس‘ یا آبلہ نما ساختیں ہیں جنھوں نے دنیا بھر کے ماہرین ارضیات کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
 
image
 
یہ ساختیں ہزاروں میل چوڑی ہیں اور ان کا حجم ساری زمین کا چھ فیصد ہے۔ ان کی اونچائی مختلف ہے البتہ براعظم افریقہ کے نیچے پائی جانے والی ساخت کی اونچائی کا تخمینہ 497 میل لگایا گیا ہے۔ اس کا نام ’توزو‘ ہے اور اس کی بلندی 90 ماؤنٹ ایورسٹ (دنیا کی بلند ترین چوٹی) کو اوپر تلے رکھنے کے برابر بنتی ہے۔
 
’جیسن‘ نامی ساخت کی اونچائی 1,118 میل تک ہو سکتی ہے جو 203 ماؤنٹ ایورسٹ کے برابر ہے۔ یہ بد شکل ہیں اور زمین کے کور یا مرکز کے گرد ایسے لپٹی ہوئی ہیں جیسے گرد کے ایک ذرے کے گرد دو امیبا (خوردبینی جاندار) چپکے ہوئے ہوں۔
 
جی ایف زیڈ جرمن ریسرچ سینٹر آف جیوسائنسز اور ناروے میں یونیورسٹی آف اوسلو سے وابستہ جیوڈائنامکس کے محقق برنہارڈ سٹینبرگر کا کہنا ہے کہ ’یہ خواص ٹوموگرافی (ایکسرے کی ایک تیکنیک) میں بہت بڑے اور نمایاں نظر آتے ہیں۔‘ اور اگرچہ یہ دیو پیکر شکلیں موجود ہیں مگر اس سے زیادہ کچھ غیر یقینی ہے۔ حتٰی کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ وجود میں کیسے آئیں اور یہ ہمارے سیارے پر کس طرح سے اثر انداز ہو رہی ہیں۔
 
ان آبلہ نما ساختوں کو سمجھنے سے زمین سے متعلق کئی اہم سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں جیسا کہ زمین کیسے بنی، سیارہ تِھیا آخر کہاں گیا، بعض مقامات پر آتش فشاں کے وجود میں آنے کا سبب معلوم نہ ہونا۔ ان سے آنے والے ہزار سال میں زمین پر رونما ہونے والی طبعی تبدیلوں کو جاننے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
 
عجیب مشکل
سنہ 1970 میں سوویت یونین نے تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ’ایکسپلوریشن پراجیکٹ‘ شروع کیا۔ یہ تھا زمین کی بیرونی پرت میں جہاں تک ممکن ہو ڈرِل کر کے (کھود کر) تحقیق کرنے کا منصوبہ۔ یہ ٹھوس چٹانی تہہ نیچے موجود مینٹل اور اس سے نیچے جزوی طور پر پگھلی ہوئی کور (مرکزہ) پر قائم ہے۔ انسان اب تک صرف اسی تہہ تک رسائی حاصل کر سکا ہے۔
 
اگست سنہ 1994 میں شمال مشرقی روس کے آرکٹک ٹنڈرا میں کولا سپرڈیپ بورہول (سراخ) کیا گیا جو 12,260 میٹر تک نیچے گیا۔ اس کے بعد ڈرل پھنس گئی۔
 
کام شروع کرنے سے پہلے کھدائی کرنے والی ٹیم نے زمین کی اندرونی ساخت کے بارے میں کچھ پیشگوئیاں کی تھیں، خاص طور سے یہ کہ جیسے جیسے وہ زمین کے مرکز کی طرف جائیں گے ہر 100 میٹر کے بعد درجۂ حرارت ایک ڈگری بڑھتا جائے گا مگر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ایسا نہیں۔
 
1980 کی دہائی میں جب وہ چھ میل گہرائی تک پہنچنے تو درجۂ حرارت کو 180 ڈگری سینٹی گریڈ پایا جو ان کی توقعات سے دوچند تھا۔
 
ان شدید حالات کے اندر گرینائٹ سے ڈرلنگ ممکن نہ رہی اور وہ پتھر کی بجائے پلاسٹک لگنے لگا۔ تجربہ روک دیا گیا اور کرسٹ یا بیرونی تہہ کی اس حد کو کوئی آج تک عبور نہیں کر سکا۔ زمین میں دھنسی ہوئی ایک زنگ آلود آہنی کیپ اب کولا بورہول کی آخری نشانی ہے۔
 
سٹینبرگر کہتے ہیں کہ ’ہم خلا کے مقابلے میں، جہاں ہم دوربین کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں، زمین کے مینٹل کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں کیونکہ ہر چیز بہت زیادہ بلواسطہ ہے۔‘
 
تو آپ کسی ایسے ماحول کے بارے میں کیسے تحقیق کر سکتے ہیں جسے نہ آپ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس تک پہنچ سکتے ہیں، جہاں عام سے مواد کے کیمیائی خواص پہچان سے باہر ہو جائیں؟
 
اس کا ایک راستہ ہے۔
 
زلزلے جیسے واقعات کے دوران جب زمین لرزتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والی توانائی کی لہروں کا مطالعہ سِسمالوجی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان لہروں میں ’سرفیس ویوز‘، جو سطحی ہوتی ہیں، اور ’باڈی ویوز‘ جو زمین کے اندر سفر کرتی ہیں، شامل ہیں۔
 
ان لہروں کے تقابلی مطالعے سے سائنسدان اندازہ لگاتے ہیں کہ زمین کے اندر سینکڑوں کلومیٹر نیچے کیا ہو رہا ہو گا۔
 
ان ہی خواص کی بنیاد پر ڈنمارک کے جیوفیزیسسٹ انگے لیہمن نے سنہ 1936 میں ایک بڑی دریافت کی تھی۔ اس سے سات برس قبل نیوزی لینڈ میں آنے والے زلزلے کے دوران ایک ایسی باڈی ویوز (لہریں) پیدا ہوئی تھی جو ہر مادے سے گزر سکتی تھیں۔ اگرچہ دوران سفر انھیں کسی رکاوٹ کی وجہ سے مڑنا پڑا تھا مگر وہ زمین سے گزر گئی تھیں۔
 
اسی دوران ایک دوسری قسم کی لہر جو مائع میں سے نہیں جا سکتی وہ نہیں گزر پائی تھی۔ اس کی وجہ سے یہ نظریہ کہ زمین کا کور یا مرکز مکمل طور پر ٹھوس ہے بدل گیا اور اس کی جگہ اس جدید نظریے نے لے لی کہ ٹھوس مرکزے کو مائع پرت نے لپیٹ میں لیا ہوا ہے، آپ اسے الٹے ناریل سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔
 
گہرائی میں موجود ایک بھید
رفتہ رفتہ اس طریقے میں بہتری لائی گئی جس کی مدد سے نہ صرف زمین کی سطح کے نیچے تک دیکھا جا سکتا تھا بلکہ اس کے نیچے پوشیدہ گہرائیوں کی بھی تین جہتی تصوراتی عکاسی کی جا سکتی تھی۔ لیکِک کہتے ہیں کہ ’ہم وہ ہی تیکنیک بروئے کار لاتے ہیں جو کمپیوٹر اسِسٹِڈ ٹوموگرامی یا کیٹ سکینز (ایک طرح کی ایکسرے ٹیکنیکس) میں استعمال ہوتی ہیں۔ دراصل ہم زمین کے اندر کی ٹوموگرافی (ایکسرے) کرتے ہیں۔‘
 
یہ ہی وہ طریقہ ہے جس نے زمین کے بلوبس یا آبلوں کا فوری طور پر پتا لگایا۔
 
image
 
پہلے خیال تھا کہ مینٹل ایک ہی پرت ہے، لیکن جیولاجسٹس نے اس کے اندر دو بڑے طبقات کا پتا لگایا، ایک افریقہ کے نیچے اور دوسرا بحرالکاہل کے نیچے جہاں زلزلے کے جھٹکے مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد کمزور پڑ جاتے ہیں۔ زمین کے کور کی طرح یہ خطے بقیہ مینٹل سے مختلف ہیں بلکہ یہ زمین کے سب سے بڑے خدوخال کی نمائندگی کرتے ہیں۔
 
انھیں لارج لو-شیئر وِلاسیٹی پراونسز یا ایل ایل ایس وی پی کہتے ہیں۔ یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ لیکِک کے مطابق ان کی قریب ترین تعریف یہ ہے کہ ’یہ بر اعظموں سے بھی بڑے ہیں۔‘
 
ایک تحقیق کے مطابق ان کی شکل ریت کے بہت بڑے ٹیلوں سے ملتی جلتی ہے جن میں سے بعض کی ڈھلوانیں خاصی عمودی ہیں، بعض کی گہرائی کم ہے، ان ٹیلوں کے بعض حصے آگے کو نکلے ہوئے ہیں۔ ان کی شکل و صورت کے بارے میں بحث اگرچہ جاری ہے، فی الحال ان کے خواص کے پیش نظر انھیں بلوبس یا آبلے کہا جا رہا ہے۔
 
مگر ایل ایل ایس وی پی کی حیران کن ظاہری شکل اس ابہام سے کہیں کم ہے جو اس سوال کے بارے میں پایا جاتا ہے کہ یہ وجود میں کیسے آئے اور کس چیز سے بنے ہوئے ہیں۔
 
لیکک کا کہنا ہے ’البتہ جو بات 100 فیصد یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اطراف کے خطوں کے مقابلے میں زلزلے کی لہریں ان میں سے اوسطاً کم رفتار سے گزرتی ہیں۔ یہ کلائمیٹ چینج کی طرح ہیں: نظریے کی بجائے ایک مشاہدہ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسے دیکھنے کی ہماری صلاحیت محدود ہے۔‘
 
سائنسدانوں کو یہ معلوم ہے کہ وہاں پر کچھ ہو رہا ہے لیکن یہ دریافت کرنا ابھی باقی ہے کہ وہ ہے کیا۔
 
اگر ایل ایل ایس وی پی اسی مادے سے بنے ہیں جس سے زمین کا مینٹل بنا ہوا ہے تو پھر فزکس کے ایک بنیادی قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے کیونکہ بلوبس اطراف کی چٹانوں سے زیادہ گرم اور کثیف یا ٹھوس دکھائی دیتے ہیں۔
 
حرارت مادے کو پھیلا کر کم کثیف کر دیتی ہے۔ مینٹل کا زیادہ حصہ گرینائٹ اور سینڈسٹون پر مشتمل ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ بلوبس میں زیادہ بھاری دھاتوں جیسا کہ لوہا اور نِکل پایا جاتا ہے۔
 
image
 
ابتدائی خیال ہے کہ بلوبس حقیقت میں قدیم ہیں اور اربوں سال پہلے اس وقت وجود میں آئے تھے جب زمین کا مینٹل جو اب ٹھوس چٹان کی شکل میں ہے، محض پگھلے ہوئے میگما کا سمندر تھا۔ اس پرت میں موجود معدنیات نے جیسے جیسے ٹھوس اور بلوریں شکل اختیار کی، اس کے بعض حصوں کے اندر کثافتیں رہ گئیں۔ یہ اس وقت سے اسی حالت میں ہیں اور ایل ایل ایس وی پی کو تشکیل دیتی ہیں۔
 
سنہ 2014 میں سٹینبرگر سمیت بین الاقوامی ماہرین ارضیات کی ایک ٹیم نے حساب لگایا کہ اس طرح کے بلوب 3 ارب سال تک قائم رہ سکتے ہیں، اگرچہ گرم حصوں کے اوپر اٹھنے اور ٹھنڈے حصوں کے نیچے جانے کی وجہ سے زمین کا مینٹل آہستگی سے گھومتا رہتا ہے۔
 
سٹینبرگر کہتے ہیں ’اور ان کے شکل نہ بدلنے کا ایک سبب ان کا سخت ہونا ہو سکتا ہے۔‘
 
ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ بلوبس ٹیکٹونِک عمل کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہیں۔ جیسا کہ بچوں کو سکول میں بتایا جاتا ہے کہ زمین کا کرسٹ یا بیرونی پرت ٹیکٹونِک پلیٹوں سے بنی ہے جو مسلسل حرکت میں ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر تلے ہوتے رہتے ہیں۔
 
بعض ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ ایل ایل ایس وی پی کرسٹ کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں سے بنے ہو سکتے ہیں جو مینٹل کی تہہ میں چلے گئے اور جن کی کیمیائی تشکیل اطراف کی چٹان سے الگ ہو سکتی ہے۔
 
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اگر آپ کرسٹ کے اس حصے کا حساب لگائیں جو پگھل کر زمین کی گہرائی میں واپس چلا گیا ہے تو یہ کرۂ زمین کا 7 سے 53 فیصد تک ہو سکتا ہے جو اس مقدار سے کہیں زیادہ ہے جو بلوبس کے اندر موجود ہے۔
 
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ایل ایل ایس وی پی بسالٹ چٹانوں سے بنے ہوئے حصے ہیں اور یہ چٹانیں بھاری سمندری چٹانوں کے نیچے سرک کر چلی گئی ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلوبس دراصل ’جغرافیائی قبرستان‘ ہیں۔
 
image
 
ایک اور خیال یہ ہے کہ زمین کے بننے کے بعد اس کے کور یا مرکز سے لوہا بہہ کر مینٹل میں چلا گیا۔ یہ بعض حصوں میں کسی طرح چٹانوں میں شامل ہو کر بلوبس بنا گیا۔ لیکن سٹینبرگر کا کہنا ہے کہ یہ آئیڈیا زیادہ قبولیت حاصل نہیں کر سکا اور فی الحال اس کا کوئی واضح جواب نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔
 
گذشتہ سال اریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے یہ اچھوتا خیال پیش کیا کہ بلوبس ایلیئن یعنی اجنبی بھی تو ہو سکتے ہیں یعنی ان کا تعلق زمین سے ہو ہی نہ۔
 
اس حقیقت سے زیادہ لوگ واقف نہیں کہ نظام شمسی کے اس حصے میں جہاں ہم رہتے ہیں تین اجرام فلکی پائے جائے تھے: زمین، چاند اور سیارہ تِھیا۔ تِھیا 4.5 ارب سال پہلے زمین سے ٹکرا گیا تھا۔ کئی سال تک یہ خیال کیا جاتا رہا کہ جب مریخ کی جسامت کا یہ سیارہ زمین کے ابتدائی برسوں میں اس سے ٹکرایا تو اس تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ملبے سے چاند وجود میں آ گیا تھا۔ یہ ملبہ زیادہ تر تِھیا کی ٹوٹ پھوٹ سے وجود میں آیا تھا۔
 
مگر اس نظریے میں ایک مشکل تھی اور وہ یہ کہ زمین اور چاند کے کیمیائی خواص ایک جیسے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں ایک ہی مادے سے تشکیل پائے ہوں۔
 
محققین نے اس کا ایک متبادل پیش کیا۔ ابتدائی برسوں میں زمین سے ٹکرانے کے بعد تِھیا زمین کے اندرونی مواد میں گھل مل گیا جس سے مینٹل کی تشکیل ہوئی۔ اس دوران چاند زمین کے ان ٹکڑوں سے وجود میں آیا جو اس سے الگ ہو گئے تھے۔
 
مسئلہ یہ ہے کہ تِھیا مکمل طور پر زمین میں ضم نہیں ہوا تھا۔ اس کا زیادہ حصہ اس قدر کثیف یا ٹھوس تھا کہ وہ مینٹل کے اندر کے کرنٹس یا روؤں سے متاثر نہیں ہوا بلکہ یہ خارجی سیارہ آج بھی ٹکڑوں کی شکل میں موجود ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہی ایل ایل ایس وی پی ہوں اور ہمارے قدموں کے نیچے کہیں کسی اجنبی سیارے کے ٹکڑے تیر رہے ہوں۔
 
مخفی اثر
قطع نظر اس کے کہ یہ کس چیز کے بنے ہوئے ہیں اس بارے میں اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ زمین کے یہ عجیب بلوبس یا آبلے چاہے جتنے بھی دور واقع ہوں سطح زمین کے اوپر کی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
 
مثلاً ہو سکتا ہے کہ یہ آتش فشاں پہاڑوں کی موجودگی کو متاثر کر رہے ہوں۔
 
image
 
دنیا کے مشہور مقامات جہاں زیادہ ارضیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جیسا کہ رِنگ آف فائر جو بحر الکاہل کے گرد آتش فشانوں کی 25 ہزار میل لمبی پٹی، ٹیکٹونک پلیٹس کے نقطۂ اتصال پر پائے جاتے ہیں جہاں یہ پلیٹیں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ زیادہ سرگرم حصوں میں یہ بات نظر نہیں آتی۔
 
شمالی بحر الکاہل کے ہوائین آئلینڈ میں چھ زندہ آتش فشاں ہیں، اس کے علاوہ لاوے کے بڑے بڑے میدان ہیں جہاں مسلسل میگما ابل رہا ہوتا ہے۔ یہ سب اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ وہ دوسروں سے ہزاروں میل دور پیسیفک پلیٹ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔
 
اس کی ایک توضیح کو ’مینٹل پلومز‘ یعنی مینٹل دھوئیں کے بادل کا نام دیا گیا ہے جو زمین کے نیچلے مینٹل سے، جو آپس پاس کے علاقے سے زیادہ گرم ہے، اٹھتے ہیں اور درخت کا سا جال بنا کر کرسٹ یا بالائی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ اس تہہ سے اٹھتے ہیں جو کور کے سب سے زیادہ قریب پائی جاتی ہے اور جس کے اندورنی حصے کا درجۂ حرارت سورج کی سطح پر پائے جانے والے درجۂ حرارت تک پہنچ سکتا ہے۔
 
سٹینبرگر کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر یہ اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ مینٹل کے مقابلے میں کور زیادہ گرم ہوتا ہے جس کی وجہ سے حرارتی عدم استحکام جنم لیتے ہیں۔‘ وہ اس کا مقابلے چولہے پر رکھے ہوئے برتن سے کرتے ہیں جس میں پانی ابل رہا ہو اور اس کے اندر سے کچھ جگہوں پر سے بلبلے اٹھ رہے ہوں مگر دوسرے مقامات سے نہیں۔
 
جہاں پر یہ چھالے زمین کی سطح کو چھو لیتے ہیں وہاں آتش فشاں وجود میں آ جاتے ہیں۔
 
آج کل سِسمالوجی کی مدد سے مینٹل پلومز کے بنیادی نقشے ترتیب دینا ممکن ہو گیا ہے۔ سنہ 2008 میں ماہرین ارضیات نے ایک دلچسپ دریافت کی اور وہ یہ کہ تمام پلومز زمینی بلوبس کے کناروں پر واقع ہیں۔
 
اس سے پہلے انڈا یا مرغی یا پھر پہلے بلوب یا آتش فشاں کا معمہ پیدا ہو گیا۔ یعنی کیا یہ جغرافیائی علاقے زیادہ فعال اس لیے ہیں کہ وہاں پر پہلے سے بلوبس موجود ہیں؟ یا وہاں اس لیے بلوبس پائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں ہونے والی سرگرمی انھیں یہ حالت اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
 
image
 
یہ کچھ اس طرح سے پیش آ سکتا ہے۔ سمندر کی پلیٹیں جو زمین کے اندر گہرائی میں جاتی ہیں مینٹل کے نیچلے حصے کو چھوتی ہیں جس کے نتیجے میں بلوبس وجود پاتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ اردگرد کی چٹانوں کے مقابلے میں زیادہ کثیف ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کور کے اوپر ایک غیر موصل تہہ سے بن جاتی ہے جو انتہائی گرم حصے کو اس کے نیچے مینٹل پلومز بنانے سے روکتی ہے۔
 
اس لیے وہ کناروں پر بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ مینٹل پلومز بلوبس کے بارڈر سے 1,796 میل اوپر زمین کے اندر ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایل ایل ایس وی پی انھیں مخصوص مقامات پر نمودار ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔
 
اگر یہ ہی معاملہ ہے تو لگتا ہے کہ یہ عجیب پوشیدہ ساختیں ہماری زمین پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ سٹرکچر اس کا تعین کرتے ہیں کے آتش فشانوں کے کون سے گروپس کہاں نمودار ہوں اور کون سے جزیریں کہاں ابھریں۔ اس کے بغیر ہوائی کے آرچیپلیگو کا وجود نہ ہوتا اور نہ چین کے ہوآئی آئلینڈ کا۔
 
سائنسدان ایک عرصے سے اس بارے میں محو حیرت ہیں کہ زمین اپنے محور کے گرد اسی مقام پر کیوں گھومتی ہے جس پر کہ وہ ہے، کہیں اور کیوں نہیں۔ یعنی قطب شمالی آرکٹیک ہی میں کیوں ہے۔
 
اس سلسلے میں ایک دلچسپ مشاہدہ یہ سامنے آیا ہے کہ زمین کے بلوبس محور کے دونوں جانب موجود ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو یہ محوری گردش کی وجہ سے وہاں پہنچے ہیں یا پھر یہ خود اس گردش پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
 
ایل ایل ایس وی پی کس طرح سے زمین کے اِنرشیا یا سکون پر اثر انداز ہوتے ہیں اس کا بالکل درست اندازہ لگانا تو مشکل ہے کیونکہ ان کی ساخت بہت زیادہ بے قاعدہ اور غیر یقینی ہے مگر لیکک نے ایک نقشہ ترتیب دیا ہے جو ان کے مقام کے تعین کے بارے میں کچھ اتفاق رائے پیدا کرتا ہے۔
 
وہ کہتے ہیں، ’اس میں جو بات آپ کو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیسیفک شرقاً غرباً، اور افریقی شمالاً جنوباً لمبوتری شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔‘
 
اگرچہ زمین کی گہرائی میں موجود یہ بلوبس یا آبلے اب بھی ہمیشہ کی طرح سے حیران کن ہیں مگر انھوں نے ہماری زمین کے کچھ رازوں سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا ہے اور ممکنہ طور پر ان میں سے کچھ سر بستہ بھید گم گشتہ اجنبی دنیا سے متعلق بھی ہیں۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: