پکڑوا بیاہ: ایسی رسم جس میں کسی بھی نوجوان کو اغوء کر کے زبردستی شادی کروا دی جاتی ہے

image
 
شادی کسی بھی انسان کی زندگی کا وہ موقع ہوتا ہے جو کہ معاشرتی زندگی میں بڑی تبدیلی کا باعث بنتا ہے اور شادی کا لڈو کھانا ہر نوجوان کی اولین خواہش ہوتی ہے حالانکہ شادی کے لڈو کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ جو کھاتا ہے وہ بھی پچھتاتا ہے اور جو نہیں کھاتا وہ بھی پچھتاتا ہے، اس لئے نوجوان یہ لڈو کھا کر پچھتانا پسند کرتے ہیں لیکن جہاں کچھ لوگوں کو یہ لڈو ایک بار بھی نصیب نہیں ہوتا وہیں کئی لوگ بار بار اس لڈو کا لطف اٹھاتے ہیں لیکن ذرا سوچیں کہ آپ کسی شادی میں شریک ہوں یا کہیں کام میں مصروف ہوں اور اچانک آپ کو اغواء کرکے اور سر پر پستول رکھ کر آپ کی شادی کسی انجام لڑکی سے کروادی جائے تو آپ کو کیسا لگے گا یہ مذاق نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔
 
اب پاکستان میں جہاں خیبر پختونخواہ میں ایک نوجوان نے شادی نہ کروانے پر اپنے والد کیخلاف تھانے میں شکایت درج کروادی ہے وہیں بھارت میں پکڑوا شادی کا معاملہ ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔
 
ابھی حال ہی میں ایک انجینئر اور ایک جانوروں کے ڈاکٹر کی زبردستی کی شادی کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آئیں، بھارتی ریاست بہار میں جانوروں کے ڈاکٹر کو مبینہ طور پر اغوا کرکے زبردستی شادی کروادی گئی۔ یہ واقعہ ضلع بیگو سرائے میں پیش آیا جہاں ستیم کمار نامی ڈاکٹر کو اغوا ء کرکے شادی کروائی گئی۔ متاثرہ شخص کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا کہ اسے نواحی گاؤں کے رہائشی نے اپنے مویشیوں کے علاج کے بہانے بلایا اور مبینہ طور پر اغوا ء کرکے زبردستی ایک لڑکی سے شادی کروا دی۔
 
 
یہ ہی نہیں بلکہ ایک نوجوان انجینئر کی زبردستی ایسی لڑکی سے شادی کرا دی گئی جسے وہ جانتا تک نہ تھا۔ یہ واقعہ بھی ریاست بہار کے ایک گاؤں میں پیش آیا جہاں دلہا نے روتے ہوئے بیان دیا کہ اسے اغواء کیا گیا اور کسی ان دیکھی لڑکی سے بندوق کی نوک پر اس کی شادی کروائی گئی۔
 
بہار کے کچھ اضلاع میں بزور طاقت نوجوانوں کو اغواء کرکے ان کی شادیاں کروا دی جاتی ہیں۔بھارت کی انتہائی حد تک غربت کی شکار ریاست بہار میں ماضی میں بھی مردوں کی ایسی ’جبری شادیوں‘ کے سیکڑوں واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں۔1980 کی دہائی میں پکڑوا شادی کے واقعات بہت عام تھے تاہم اب ان میں کسی حد تک کمی آچکی ہے۔
 
ماضی میں ایسے معاملے شمالی بہار کے کچھ اضلاع تک محدود تھے لیکن بعد میں دیگر اضلاع میں بھی ایسے واقعات شروع ہوئے۔ ’’بغیر کسی رضامندی کے ایسی جبری شادیاں بعد ازاں انفرادی اور سماجی طور پر بھی اس لیے قبول کر لی جاتی ہیں کہ ہندوؤں میں طلاق کو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے۔ دلہا کو اغوا کر کے ایسی جبری شادیاں اکثر بہت غریب خاندانوں کے لوگ کراتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ غربت کے شکار والدین اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دے سکتے۔
 
image
 
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں بھارتی مردوں کو اغوا ء کر کے ایسی قریب تین ہزار جبری شادیاں کروائی گئیں جن میں سے کوئی ایک بھی منسوخ نہ کی گئی اور سبھی دلہوں نے آخرکار ’حالات سے سمجھوتہ‘ کر ہی لیا۔
 
بہار پولیس کے مطابق رواں سال مارچ 2022تک ریاست بھر میں پکڑوا شادی کے 3کیسز درج کیے گئے جبکہ اس کے پہلے 2020 میں پکڑوا شادی کے 33 اور 2021 میں 14 کیسز درج کیے گئے تھے۔
 
والدین کیلئے اپنی بیٹیوں کی جبری شادیاں کروانا ایک انتہائی اذیت ناک عمل ہے، نازوں سے پلی بیٹی کو یوں زبردستی کسی کے ساتھ بیاہ دینا کسی بھی ماں باپ کیلئے آسان نہیں ہوسکتا لیکن جہیز اور دیگر مسائل کی وجہ سے والدین یہ عمل کرنے پر مجبور ہیں لیکن اگر جہیز اور دیگر غیر ضروری رسومات پر پابندی عائد کردی جائے تو شائد والدین زبردستی اپنی بیٹیاں زبردستی کسی کے ساتھ رخصت کرنے پر مجبور نہیں ہونگے۔
YOU MAY ALSO LIKE: