ایک لمبے عرصے کے بعد ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی۔
پیچارا پریشان تھا۔ پریشانی یہ تھی کہ وہ بھی میری طرح پنشن زدہ تھا، بجٹ
زدہ تھا۔مہنگائی زدہ تھا۔ حالات زدہ تھا۔ ستم زدہ تھا۔ڈاکٹر اور حکیم زدہ
تھا اور کس کس پریشانی کی بات کروں ریٹائر ہونے کے بعد آدمی جس جس زد میں
ہو سکتا ہے وہ اس زد میں تھا۔میں نے پوچھا کہ بھائی اس قدر پریشان کیوں ہو۔
اتنے عرصے بعد ملے ہو توکچھ مسکرا کر بات کرو۔ کہنے لگا کیسی مسکراہٹ اور
کس بات کی مسکراہٹ ۔ حکومت نے ہم پنشن والوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے
نتیجے میں میری مسکراہٹ غائب ہو گئی ہے کیا کروں۔ماشا اﷲ پورے پانچ فیصد
اضافہ کیا ہے، بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ، دینے والوں کو شرم کے لفظ سے
واقفیت ہی نہیں۔ اب اس نسوار نما پنشن یا پنشن نما نسوار سے دو چھینکیں تو
ماری جا سکتی ہیں، مسکرایا نہیں جا سکتا۔ ویسے بھی اس گرمی کے موسم میں
کبھی کولر کے آگے اور کبھی کولر سے پرے۔ ٹھنڈا گرم ہونے سے اس عمر میں
چھینکیں آنا تو ایک معمول ہے چلیں دو چھینکیں بجٹ کے نام پر اپنے ان خویش
پرور سخی حکمرانوں کے نام کی بھی سہی۔پھر وہ لمبی سوچ میں ڈوب گیا۔
صوفے پر آرام سے بیٹھے بیٹھے یکدم اسے چلنے کی سوجی۔ کہنے لگا، صوفہ آرام
دہ تو ہے مگر اس سے اٹھنا مشکل ہو رہا ہے ، ذرہ ہاتھ دینا ، اٹھوں اور
جاؤں۔ میں نے کہا بھائی اٹھا تو دوں مگر تم جیسے بھاری بھرکم کو اٹھاتے
کہیں میں بھی تمہارے ساتھ ہی لیٹ نہ جاؤں اس لئے کسی نوجوان کو بلاتا ہوں ۔
میں بیٹے کو آواز دینے لگا تو اسے کچھ یاد آ گیا۔ کہنے لگا ٹھہرو، یاد آ
گیا، کافی دیر سے سوچ رہا تھا کہ کیا اہم بات تم سے کرنی رہ گئی ہے تو یاد
آیا کہ زندگی ساری تو بقول ساغر جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے ۔ سرکاری ملازمت
میں تو صبر اور شکر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔لگی بندھی تنخواہ، بس گزارہ ہو
جائے ، اسی پر خوش رہتے تھے ۔ آرزوئیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ مگر اب قدریں بدل
گئی ہیں،آج پیسہ ہی سب کچھ ہے ۔ سوچتا ہوں ریٹائرمنٹ کے بعد اب آزاد زندگی
ہے ، چاہتا ہوں کہ کسی طرح کوئی ایسا بزنس کروں کہ بس دنوں میں ارب پتی ہو
جاؤں ۔ کوئی اچھا سا بزنس بتاؤ۔ میں ہنس دیا۔ بھائی زندگی کا یہ آخری مرحلہ
سکون سے گزارو۔ الٹی سیدھی سوچوں سے نجات پاؤ۔ تمہاری یاد داشت کا یہ عالم
ہے کہ جو کہنے آئے تھے وہ بھول گیا اور ذہن پر بہت زور ڈال کر تم نے یاد
کیا۔ کسی سہارے کے بغیر تمہارا اٹھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ایسی حالت
میں رب نے زندگی کی جو نعمت دی ہے اور جتنے دن دی ہے اس کا شکر کرو اور
آرام سے اپنے بقیہ دن گزارو۔ اﷲتمہیں مزید عمر دے بلکہ عمر خضر دے،مگر اپنے
آپ کو خراب کرنے کا مت سوچو۔پہلے تو وہ کچھ ناراض گم سم بیٹھا رہا ، پھر
کہنے لگا مجھے تم سے بہت امید تھی کہ تم کوئی معقول راستہ یا کوئی اچھاکام
بتا دو گے مگر تم نے مایوس کیا ہے۔ کام کرنا تو میری ہمت ہے، تم الٹا میرے
جذبے کو نیند کی آغوش میں دے رہے ہو۔دنیا میں بڑے لوگ ہیں جنہوں نے عمر کے
آخری مرحلے میں کسی کام کی ابتدا کی اوراپنے کام کی بدولت شہرت کی بلندیوں
تک پہنچے۔ KFC کے بانی اور مالک کی مثال تمہارے سامنے ہے۔اس نے آخری مرحلے
ہی میں کام کی ابتدا کی تھی اور آج نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس کی بات ٹھیک تھی، مگر ہر ملک کے اپنے حالات اور ان حالات کے مطابق لوگوں
کے لئے مواقع ہوتے ہیں۔میں نے اسے بتایا کہ ہمارے حالات میں ایک عام آدمی
کے لئے کروڑ پتی بننے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم نے اخلاقی قدروں
کو تیع تیغ کر دیا ہے ، اب دور مالی قدروں کا ہے اور مال بنانے اور کروڑ
پتی بننے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے جو شاید میں اورتم یا ہمارے جیسے لوگ
اپنا نہیں سکتے۔اس راستے پر چلنے والے بھی اصل کام ابتدا ہی میں کرتے ہیں۔
ہم جو پچاس سال تک کی عمر تک کر سکتے تھے کر لیا، مزید ہمارے بس میں نہیں۔
اب سکون اور آرام ضروری ہے ، بہتر ہے آرام سے گھر جاؤ، بچوں کے ساتھ ہنسی
خوشی وقت گزارو۔ہاں اگر تم بضد ہو تو بتا دیتا ہوں اس ملک میں کروڑ پتی یا
ارب پتی بننے کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے ڈاکہ زنی۔ اگر ڈاکے مار سکتے ہو تو
اﷲکا نام لے کر شروع ہو جاؤ۔ اﷲ کا نام لینا شاید تمہیں برا لگے مگر یہاں
ہر ناجائز اور حرام کی ابتدا لوگ اﷲ کے نام ہی سے کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں
کہ حرام بھی با برکت اور پاک صاف ہو گیا ہے۔
وہ بہت ہمت کرکے اٹھا کہ میں تمہیں سنجیدہ آدمی جان کر تمہارے پاس آیا تھا،
تم ایسی باتیں کر رہے ہو جس میں سوائے گرفتاری کے اور کچھ بھی نہیں۔ میں نے
کہا سنو،گرفتاری آج تک کسی بڑے ڈاکو کی نہیں ہوئی۔ تم ڈاکہ مارنے چلے ہو یا
کوئی مسکین سی چوری کرنے کہ کوئی چھوٹا موٹا تھانیدار پکڑ لے گا۔ یاد رکھو
یہ ملک ڈاکوؤں کی جنت ہے۔ جتنا بڑا ڈاکہ ہو گا، اسی قدر تم محفوظ ہو
گے۔معیاری ڈاکہ ڈالنے والے ہر طرح سے محفوظ ہوتے ہیں۔پچھلے تیس چالیس سالوں
میں ہر وہ سیاستدان، ہر وہ جج، ہر وہ جرنل ، ہر وہ بیوروکریٹ اور ہر وہ
بزنس مین جو راتوں رات امیر ہوا، عملاً ڈاکو تھا۔کبھی کسی کو سزا ہوئی۔ بعض
ڈاکے تو کچھ اداروں نے اپنے ارکان کے لئے قانونی قرار دے دئیے ہیں۔وہ ڈاکے
تو اب ہر صورت جائز سمجھے جاتے ہیں۔ ہر سینئر بیوروکریٹ، ہر سینئر جج اور
ہر جرنل ریٹائر ہوتے وقت ایک کروڑوں روپے کی مالیت کا پلاٹ لینا اپنا
استحقاق سمجھتا ہے،ہر انجینئر کمیشن لینا حق سمجھتا ہے۔ہر سرکاری ڈاکٹرمریض
ہسپتال سے گھیر کراپنے پرائیویٹ کلینک لاتا ہے یہ مہذب ڈاکہ نہیں تو اور
کیا ہے۔مگر یہ عجیب ڈاکہ ہے کہ ان کی عزت پر بھی کوئی حرف نہیں آتا۔اس
قانونی ڈاکہ سے ہٹ کر بھی ڈاکوؤں کا یہ طبقہ بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ میں
مصروف ہے ۔ اسی اور نوے کی دھائی میں جو لوگ سیاست میں آئے ان کی مالی حالت
دنوں میں ہزاروں گنا بہتر ہوئی مگر کسی نے پرواہ نہیں کی۔ اسی زمانے میں
میرے جاننے والے کچھ بیوروکریٹ جن کی کل پانچ سات سالہ نوکری تھی کے بارے
مشہور تھا کہ انہوں نے کینڈا اور امریکہ میں ا پنا لوٹ مار کا جمع کیا ہوا
کروڑوں روپیہ سرمایہ کاری کے لئے منتقل کیا ہے۔ کسی نے انہیں نہیں
پوچھا۔میں اور میرے جیسے استاد جو انیس، بیس اور اکیس گریڈ میں کام کرتے
رہے ہیں، آج کراچی کا جہاز کا ٹکٹ بھی خریدتے دس دفعہ سوچتے ہیں۔ مگر ان
ڈاکوؤں کے گریڈوں میں جانے کیا خوبی تھی کہ آج ان کی رہائشیں بمعہ آسائشیں
بھی مغربی ممالک میں ہیں۔ اور وہ ہر مہینے جب چایتے ہیں اور جتنی دفعہ
چاہتے ہیں وہاں آ جا رہے ہوتے ہیں۔یہ رہائشیں اور آسائشیں حلال کمائی میں
ممکن ہی نہیں۔ یہ سب ڈاکے کی پیداوار ہیں۔ ایسے ڈاکوؤں میں کوئی کبھی قابو
آ جائے تو وکیل اور اہلکار حصہ وصول کرکے اسے یوں چھوڑتے ہیں کہ وہ جیل سے
وکٹری کا نشان بناتے باہر آتے ہیں، معاشرہ بھی صرف ان کی دولت دیکھتا اور
انہیں قابل عزت جانتا ہے۔ میرے دوست سوچو اگر حوصلہ اور وسائل ہیں تو اس
ملک میں ڈاکے کے علاوہ کوئی دوسرا کام ایسا نہیں جو محفوظ بھی ہو اور آپ کی
کایا بھی پلٹ دے۔
تنویر صادق
|