مون سون تاریخ کے جھروکوں میں۔۔۔۔ کیا سیلاب نے بھٹو کو ڈبو دیا؟

image
 
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا. کراچی میں صرف 12 گھنٹوں میں آٹھ انچ سے زائد بارش ہوئی۔ کراچی سیلاب میں ڈوب گیا۔ 1977 میں جولائی کے اوائل میں ہونے والی بارش نے 350 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا۔ سیلاب نے 20,000 سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہوئے۔ ملک میں جمہوری نظام کی ناکامی کے باعث فوج کو ملک سنبھالنا پڑا۔ سماجی و سیاسی بحث اکثر سیاسی عدم استحکام کو بھٹو کے زوال کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
 
اپوزیشن جماعتوں نے بھٹو کے خلاف بڑے پیمانے پر ایجی ٹیشن شروع کی ہوئی تھی کیونکہ وہ مارچ 1977 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ سمجھتے تھے جس کے تحت بھٹو اقتدار میں آئے۔ آج بھی ہر اپوزیشن کا یہ ہی رونا ہوتا ہے۔
 
1977 میں صرف اپوزیشن جماعتیں ہی مسئلہ نہیں تھیں بلکہ سیلابی پانی سڑکوں پر بہہ رہا تھا۔ کراچی کے کچھ علاقوں میں سیلابی پانی پانچ سے آٹھ فٹ بلند تھا۔ایک ساتھ سیاسی فسادات اور سیلاب نے معیشت کو تباہ کر دیا تھا اور بھٹو کی حکومت کو کمزور کر دیا تھا جو پہلے ہی ایک سال پہلے سے سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کر رہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی قسمت کو ایک نہیں بلکہ سالانہ سیلابوں کے ایک لگاتار سلسلے کا سامنا تھا یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ کیا مون سون کی تباہ کن بارشیں نہ ہوتیں تو بھٹو کی قسمت کچھ اور ہوتی؟
 
70 کی دہائی کے اواخر میں خطے میں اہم ہنگامہ آرائی کا دور تھا۔ پڑوسی ممالک کے حالات بھی کوئی اچھے نہیں تھے ایران خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔ رضا شاہ پہلوی کی حکومت ایرانی ملاؤں کے ہاتھوں ختم ہونے والی تھی۔ افغانستان میں سوشلسٹ حکومتیں جنہوں نے زبردستی بادشاہت کی جگہ لی وہ عسکریت پسند کسانوں کے دباؤ میں آکر، امریکہ، سعودی اور پاکستان کی مدد اور حوصلہ افزائی کر رہی تھیں۔ چین کو ابھی تک پوری طرح سے مغرب نے قبول نہیں کیا تھا اور یہ ایک معمہ اور غیر متزلزل خطرہ بنا ہوا تھا۔ اور بھٹو حکومت ان تمام حالات کا سامنا کر رہی تھی۔
 
image
 
پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب:
لیکن پھر سیلاب آئے نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی۔ درحقیقت پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم 1973 سے سیلاب کی لپیٹ میں تھے۔ 1973 میں آنے والے سیلاب نے کپاس اور چاول کی کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔ کروڑوں ڈالر مالیت کی ذخیرہ شدہ گندم ضائع ہو گئی۔ بھٹو کی حکومت سیلاب کے لیے کوئی پیشگی منصوبہ بندی کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ اپوزیشن جماعتوں نے مسٹر بھٹو پر غلط حکمرانی کا الزام لگایا۔
 
مسٹر بھٹو نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سیلاب کا استعمال کیا۔ معاشی بحالی پر توجہ دینے کے بجائے انھوں نے تحفظ پسند ایجنڈے کی پیروی کی اس کے ساتھ ساتھ اختلاف رائے کے ساتھ ان کا اونچ نیچ کا سلوک تباہ کن ثابت ہوا۔ بالآخر وہ ہوا جو یقیناً نہیں ہونا چاہئے تھا ۔
 
کراچی میں 1977 کے بعد سے کئی بار مون سون بارشیں ہو چکی ہیں۔ افسوس کہ شہر آج بھی سیلاب سے نمٹنے کے لیے اتنا ہی تیار نہیں جتنا چالیس سال پہلے تھا۔ مزے کی بات ہے آج ملک اس وقت سے زیادہ مسائل کا شکار ہے لیکن شاید کوئی شنوائی نہیں۔
 
قدرتی آفات کی سیاست:
قدرتی آفات موجودہ حکومتوں کے لیے بھی بڑی ہلچل کا باعث ہیں، حکومتیں ان آفات کا سامنا کرنے میں تقریباً ناکام ہی رہتی ہیں۔ ابھی جنوری میں پاکستان کی تاریخ کا المناک اور افسوسناک سانحہ مری میں ہوا ۔غیر معمولی برف باری ہوئی جس میں حکومتی بد انتظامی کے باعث 23 سے زیادہ لوگ گاڑی میں جم کر اپنی جانیں کھو بیٹھے۔ لیکن اس واقعے کا ذمہ دار بھی عوام کو ٹہرایا گیا۔ جب وزراء کی گاڑیاں گزرنی ہوتی ہیں تو عوام پر سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ آخر مری میں جانے والے سیاحوں کے لئے باقاعدہ انتظام کیوں نہیں کیا گیا یا گنجائش سے زیادہ وہاں کیوں گاڑیاں جانے دی گئیں؟
 
image
 
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ غریبوں کی موت قدرتی آفات سے نہیں ہوتی بلکہ ان کے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہوتی ہے جو آفات کے بعد مناسب طریقے سے کام کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
 
پاکستان میں سیلاب کا خطرہ 2010 میں بھی واضح تھا جب دسیوں ملین بے گھر ہوئے اور ہزاروں ہلاک ہوئے۔ آج بھی اگرچہ سیلاب عوام کے لیے اتنا ہی تباہ کن ہے جتنا کہ 70 کی دہائی میں تھا۔لیکن عوام اب تھک سی چکی ہے وہ سیاسی اشرافیہ کو نقصان نہیں پہنچاتے. ماضی سے لے کر حال تک جائزہ لیا گیا حالات بہتر ہونے کی بجائے اور بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ بے شک اب عوام کو قدرت کے انصاف کی آس ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: