ایک کے بعد ایک گھر کے افراد کو ہسپتال جاتے دیکھا، بدترین دنوں کی کہانی جس نے پورے گھرانے کو لپیٹ میں لے لیا

image
 
کرونا کی وبا نے جس طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس نے ہر گھر کے اندر ایک داستان چھوڑی۔ وبائی بیماری ہونے کے سبب کرونا کا سب سے بدترین پہلو یہ تھا کہ یہ ایک فرد سے دوسرے فرد تک تیزی سے منتقل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اکثر افراد کو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ وہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے-
 
کرونا وبا سے متاثر ہونے والے ایک گھرانے کی داستان
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر بھارت سے تعلق رکھنے والی نوشین خان کی ایک ویڈيو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔ اس ویڈیو میں نوشین خان نے اپنے خاندان والوں کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی پوری کہانی اس انداز میں بیان کی کہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ سب کچھ ہمارے اپنے اوپر گزرا ہے-
 
نوشین خان کا یہ کہنا تھا کہ ان کے گھر میں وہ اور اس کی دادی سب سے پہلے کرونا سے متاثر ہوئے اور اس کے بعد ان کے دادا کو بھی کرونا ہو گیا- ابتدا میں بیماری کی علامات بہت شدید نہ تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ دادا دادی کی حالت خراب ہونے لگی اور ان کا آکسیجن لیول کم ہونے لگا جس کے بعد ایمبولنس منگوا کر دونوں کو ہسپتال بھیجنا پڑا-
 
نوشین خان کے مطابق کسی بھی انسان کے لیے یہ بدترین وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اپنے جان سے پیارے لوگوں کو ایمبولنس میں ڈال کر بھیجتے ہیں اور ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ ان کو دوبارہ دیکھ سکیں گے یا نہیں۔ نوشین خان کا یہ کہنا تھا کہ ان کی دادی جو کہ ذیابیطس کی مریض بھی تھیں اس موذی مرض کے سبب بہت کمزور ہو گئی تھیں-
 
image
 
دادا دادی کے بعد ماں باپ بھی
دادا دادی کا علاج جاری ہی تھا کہ اسی دوران ان کے گھرانے کو یہ خبر ملی کہ ان کے ماں باپ بھی اس موذی مرض کا شکار ہو گئے ہیں- ان کی گھر پر ٹریٹمنٹ شروع کروا دی گئی مگر نوشین خان کا یہ کہنا تھا کہ ان کے ابو کی حالت بگڑنا شروع ہو گئی اور پتہ چلا کہ ان کے ابو کے پھیپھڑے 60 فی صد متاثر ہو چکے ہیں جس کے بعد ایک بار پھر ایمبولنس آئی اور اس بار نوشین خان نے اپنے والد کو اس ایمبولنس میں رخصت کیا-
 
بیٹے کو ماں باپ سے دور رکھا گیا
نوشین خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس دوران انہوں نے ہسپتال انتظامیہ سے یہ درخواست کی کہ ان کے والد کو دادا دادی سے دور رکھا جائے کیوں کہ اگر ان کو اپنے بیٹے کی حالت کا پتہ چلا تو ان دونوں کا بچنا مشکل ہو جائے گا-
 
اتنی تکالیف کے بعد ایک اچھی خبر
اسی دوران نوشین خان کا یہ کہنا تھا کہ ان کے ماموں اور ان کا خاندان اور ان کے چچا اور ان کا خاندان بھی کرونا کا شکار ہو چکا تھا- ان کی طبیعتیں بھی بہت خراب تھیں مگر اب ڈاکٹروں نے ان کو بتا دیا تھا کہ ہسپتال میں مذيد مریضوں کے لیے جگہ نہیں ہے اس وجہ سے وہ سب گھر پر ہی رہنے پر مجبور تھے-
 
مگر اتنی بری خبروں کے ساتھ ایک اچھی خبر یہ تھی کہ نوشین خان کی دادی کی حالت بہتر ہو گئی تھی اور ان کو ڈاکٹروں نے ہسپتال سے چھٹی دے دی تھی- گھر واپس آتے ہوئے وہ دادا جان سے ملیں اور ان سے کہا کہ میں گھر جا رہی ہوں تم بھی جلدی ٹھیک ہو کر آجانا-
 
image
 
والد اور دادا کی بگڑتی حالت
دادی تو واپس آگئيں مگر دادا کی اور والد کی حالت روز بروز بگڑتی چلی جا رہی تھی- یہاں تک کہ والد کے پھیپھڑوں نے نوے فی صد کام کرنا چھوڑ دیا اور دادا کو بھی ڈاکٹروں نے وینٹی لیٹر پر ڈالنے کا کہہ دیا تھا-
 
اس وقت میں ڈاکٹرز نے ان کے والد کے لیے ایک خاص انجکشن اور پلازمہ کے انتظام کا کہا نوشین خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ ایک انجکشن جو کہ میڈيکل اسٹور والے کے پاس موجود ہونے کے باوجود اس نے دینے سے انکار کر دیا- مگر بہت سفارشوں کے بعد وہ دینے کے لیے بھاری قیمت کے عوض راضی ہوا جس کے بعد ان کے والد کو پلازما بھی لگايا گیا-
 
دادا کا انتقال اور قیامت
دوسری طرف دادا کی حالت بگڑتی جا رہی تھی ابو اور دادا دونوں کو سی پیپ کے ذریعے سانس دیا جا رہا تھا- اسی دوران ان کو خبر ملی کہ دادا کا انتقال ہو گیا ہے مگر ڈاکٹرز نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ان کے انتقال کی خبر دادی ، امی اور چاچو وغیرہ کو نہیں دینی ورنہ ان کے ہارٹ فیل ہونے کا اندیشہ ہے-
 
نوشین خان اپنی زندگی کے اس مشکل ترین دور کو بیان کرتے ہوئے اشکبار ہو گئيں- ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی موت تھی جس کا غم بھی ہم کھل کر نہیں کر سکتے تھے ہم چھپ چھپ کر رونے پر مجبور تھے
 
بزرگ ایک سائے کی طرح ہوتے ہیں
نوشین خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بزرگ تو ایک سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں ویسے ہی اس کے دادا بھی تھے انہوں نے سب گھر والوں کی تکلیف کو اپنے سر پر لے لیا ان کا جنازہ بھی گھر نہیں لایا جا سکا اور ان کو دفن کر دیا گیا-
 
مگر اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ دادا جان نے سب کی تکالیف اپنے سر لے لیں نوشین خان کے والد کی حالت جن کو ڈاکٹر جواب دے چکے تھے تیزی سے بہتر ہونے لگی اور یہی کیفیت گھر کے باقی لوگوں کی بھی ہوئی اور وہ سب بھی بہتر ہونے لگے-
 
برے وقت کی یادیں آج بھی خوفزدہ کر دیتی ہیں
اس موقع پر نوشین خان کا یہ کہنا تھا کہ اب بھی کرونا وائرس کا نام ان کو خوفزدہ کر دیتا ہے اب جب کہ ایک بار پھر کرونا کے پھیلنے کی خبریں آرہی ہیں تو یہ ان کو خوفزدہ کر رہی ہیں کیوں کہ اب اپنے کسی اور پیارے کو کھونے کا حوصلہ وہ خود میں نہیں رکھتی ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: