آن لائن ٹکٹ کروانا جرم ٹہرا، جس ڈبے میں بکنگ وہ ڈبہ ہی نہیں! قصوروار نااہل ریلوے انتظامیہ مگر سزا کس کو بھگتنی پڑی جانیں

image
 
میرا نام خواجہ مصدق ہے اور میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہوں۔ کراچی میں رہائش ہے اس سال جب گرمی کی چھٹیوں میں اسکول بند ہوئے تو میں نے سوچا کہ اپنی فیملی کے ساتھ اپنی بہن کے گھر چکر لگا آؤں جو سکھر میں رہتی تھیں-
 
جب اس بات سے بیوی بچوں کو آگاہ کیا تو ان کی تو خوشی کا ٹھکانہ کوئی نہ تھا میں نے آسانی کے خیال سے آن لائن بکنگ سکھر ایکسپریس سے پہلے ہی کروا لی تھی تاکہ کسی قسم کی بدمزگی کا سامنا نہ کرنا پڑے خوشی خوشی یکم جولائی 2022 کو جمعہ کی رات روانگی کے لیے جب اسٹیشن پہنچے تو سب ہی کے بہت پلان تھے-
 
اردو والے سفر کے انگریزی والے SUFFER میں بدلنے کی روداد
بچے سوچ رہے تھے کہ ٹرین کے سفر اور اس کے مناظر کو وہ کیسے انجوائے کریں گے جب کہ میں سب کو خوش دیکھ کر خوش تھا لیکن جب ہم اس بوگی میں گئے جس میں ہماری بکنگ تھی تو وہاں پر ریلوے انتظامیہ کی بد انتظامی کے سبب ہمارے نمبر کی سیٹس اس ڈبے میں موجود ہی نہیں تھیں اور اس کی جگہ ایک دیوار پر پیغام لکھا ہوا تھا کہ ان سیٹ نمبر والے افراد سولہ نمبر بوگی میں جا کر سیٹ حاصل کریں-
 
ابھی بحث و تکرار جاری ہی تھی کہ ٹرین نے وسل بجائی اور روانہ ہو گئی اور میں ٹرین میں اپنے سامان اور بیوی بچوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ سولہ نمبر بوگی میں جانے کے لیے راستہ نہیں تھا اندر سے ٹرین اس حد تک بھر چکی تھی کہ سامان اور بچوں کے ساتھ سولہ نمبر بوگی تک جانا محال تھا کیونکہ بغیر سیٹ ٹکٹ حاصل کرنے والے لاتعداد مسافر راستوں میں ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے-
 
image
 
سولہ نمبر بوگی ہی ٹرین میں نہیں
مگر میں نے اس کے باوجود اکیلے وہاں جانے کا فیصلہ کیا تاکہ حالات دیکھ کر بچوں کو لے جا سکوں لوگوں کے اوپر سے کودتا پھاندتا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میں ایک ایک بوگی کراس کرتے ہوئے جب پندرہ نمبر بوگی تک پہنچا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ اس ٹرین میں تو پندرہ نمبر سے آگے بوگی ہی نہیں ہے-
 
ایک جانب بیوی بچوں کی پریشانی اوراس کے بعد شرمندگی کے احساس اور پریشانی نے میرا بھی وہی حال کر دیا جو ان حالات میں کسی کا بھی ہو سکتا تھا۔ میں غضب ناک ہو کر ٹکٹ چیکر کے پاس جب گیا تو اس کا رویہ اور سرد مہری دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہیں پاتے ہیں مگر ان کا رویہ اور نااہلی پر ہم باز پرس کے حق سے بھی محروم ہیں-
 
بہرحال ٹکٹ چیکر صاحب کا یہی کہنا تھا میں کیا کرسکتا ہوں آپ خود بھگتیں یہی آپ کی قسمت ہے اور اگر آپ کے ساتھ یہ ہوا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے- اور ساتھ ہی انکشاف کیا گیا کہ بوگی 16 نہیں 15 نمبر ہی ہے اور اسی کی سیٹیں وہاں نمبر بھی غلط درج ہے- تاہم اس وقت10 نمبر بوگی سے فیملی اور سامان کو لے کر ٹرین کے اندر سے ہی 15 نمبر تک پہنچنا بھی ناممکن تھا- بہت مشکلوں کے بعد سفر کے چار گھنٹوں میں کھڑے رہنے کے بعد میں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا وہ بھی اس وقت جب ٹرین کوٹری اسٹیشن پر رکی تو پوری فیملی کو دوبارہ اسٹیشن پر اتار اور 15 نمبر بوگی تک رسائی حاصل کی-
 
image
 
ریلوے کی بہتری کی ضرورت
لیکن اس سفر نے اور میرے ساتھ ہونے والے اس واقعے نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جب ریلوے انتظامیہ کے پاس ایس ایم ایس کر کے مسافروں کو کسی بھی مسئلے کی صورت میں بروقت آگاہ کرنے کی سہولت موجود ہے تو پھر تو سیٹیوں اور بوگی کی تبدیلی کے بارے میں آگاہ کیوں نہیں کیا جاتا-
 
صرف آن لائن بکنگ کرنا ہی بڑی بات نہیں ہے بلکہ اس کو درست انداز میں فالو اپ کرنا بھی ضروری ہے ورنہ ہمارا ریلوے کبھی بھی خسارے سے باہر نہیں نکل سکے گا- اس کے علاوہ ریلوے حکام اور وزارت ریلوے اس طرح کے طرزِ عمل پر ضرور ایکشن لینا چاہیے تاکہ مسافروں کے درمیان ریلوے پر اعتماد قائم ہوسکے-
YOU MAY ALSO LIKE: