بجلی کا فقدان

پاکستان حالیہ دور میں بجلی کے فقدان کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ 7648 میگاواٹ بجلی کی کمی ہے جو کہ آٹھ سے دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا سبب بنی ہوئی ہے۔ کل توانائی 18031 میگاواٹ ہے جبکہ 25,500 میگاواٹ پیدا کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو ایشیا میں سب سے مہنگی بجلی پیدا کرنے والا ملک پاکستان ہے۔ عام طور پر ممالک پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں جسے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ کہتے ہیں۔ جبکہ پاکستان 60 فیصد بجلی ہائیڈرو کاربن سے بنا رہا ہے جس کی وجہ سے 400 یونٹ استعمال کرنے پر 16 سے 24 روپیہ زیادہ خرچ آتا ہے۔ اور یہ مہنگائی غریب عوام اپنے جیبوں سے بھرتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم کوئلے، آئل اور گیس کی بجائے پانی منصوبوں پر کام کریں۔ دیگر wind project, سولر انرجی, سول نیوکلیئر اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مزید سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے مزید ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید ڈیم کی تعمیر سے زراعت بھی مضبوط ہوگی۔ یاد رکھئیے معاشی پاکستان سروے کے مطابق پاکستان 18%GDP زراعت سے بناتاہے۔ اور دیہی علاقوں میں 60%روزگار کا انحصار زراعت پر ہے ۔ہوش ربا حقائق کے مطابق پاکستان اس سال پانی کی شدید کمی کا شکار ہے اور بالکل 2018 کے قحط جیسی صورتحال ہے۔ اسی لئے چولستان، تھر اور تھل پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت پاکستان کا ہر بڑا شہر پانی کے شدید فقدان کا شکار ہے۔ افسوس کہ پاکستان کے ہر آنے والے حکمران کو صرف اپنی پڑی رہی اور کسی نے بھی ڈیم بنانے پر زور نہیں دیا۔ یہ بات یاد رکھئیے کہ ڈیم بنانے کے لئے پیسہ جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ کوئی نہ کوئی بیرون ملک سے انویسٹر لے کر پیسہ لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ داسو ڈیم جو پورے ملک کے لئے 3دن کا پانی محفوظ کر سکتا ہے۔ چائنہ کی امداد سے زیرِ تعمیر ہے۔ اسی طرح مہمند ڈیم بھی چینی کمپنی کی کاوش سے زیر تعمیر ہے۔ دوسری طرف کالا باغ ڈیم جو کئی دہائیوں سے زیر تعمیر ہے اور 23 دن کا پانی محفوظ کر سکتا ہے۔ صوبائیت اور انتشار کی نظر ہوا ہے۔ مرسو مرسو سندھ نہ ڈیسو کا نعرہ لگانے والے کالا باغ ڈیم کو پاکستان کی سالمیت اور وفاق کے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ جبکہ اس ڈیم کے نا ہونے کے باعث ہر سال پہلے خشک سالی اور پھر سیلاب بھگتنا پڑتا ہے۔ خود اندرون سندھ لوگ صاف پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں۔ ہمارے اندرونی عدم اتحاد اور نا اہلی کو انڈیا سرےعام استعمال کر رہا ہے۔ سندھ تاس معاہدے کے تحت ہمارے مغربی پانی پر درجنوں ڈیم بنا کر دنیا کے سامنے عالمی مصالحتی عدالت میں 2013میں یہ بات ثابت کر چکا کہ پاکستان کو اگر پانی کی ضرورت ہوتی تو یہ ڈیم بناتا نہ کہ 21ارب ڈالر کا پانی سمندر میں بہا رہا ہوتا۔

افسوس کہ 2018 میں نواز حکومت نے 10ارب ڈالر ڈیم بنانے کے لئے مختص کئے اور پھر عمران خان نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ مل کر دس دس روپے کا چندہ جمع کیا۔مگر آج عوام پوچھتی ہے کہ ہمارا پیسہ کہا گیا؟ تو کسی کے پاس تسلی بخش جواب نہیں۔
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 43349 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.