سرکاری ملازمین کا عالمی دن

ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی سرکاری ملازمین کا عالمی دن منائیں گے جس کا مقصد اچھی طرز حکمرانی اور ترقی کے عمل میں سرکاری ملازمین کے کردار کی ضرورت واہمیت کو اجاگر کرناہوتاہے مگر بدقسمتی سے ہم سب ان سرکاری افسران کی جھوٹی تعریفیں کررہے ہوتے ہیں حالانکہ پاکستان کے سرکاری افسران نے لوٹ مار کے نئے نئے ریکارڈ بنائے بلوچستان کے سیکریٹری اور کراچی کے افسر کے گھر اور پانی والی ٹینکی سے اتنے نوٹ برآمد ہوئے تھے کہ نوٹ گننے والی مشینیں جواب دے گئی تھی خیر سے ہمارے یہ افسران کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے ہیں جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا یہ دن تو ان لوگوں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے جو سچی لگن اور ایمانداری سے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں اور ایسے افراد انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2002 کو قرارداد منظو ر کرتے ہوئے 23جون کو ہرسال پبلک سروس کا دن منانے کا فیصلہ کیا تھا پاکستان میں حکومت کی خدمات انجام دینے والے ملازمین کے سائز، ترقی، افعال اور مہارت کے امتزاج کے بارے میں بہت زیادہ قیاس آرائیاں اور بہت کم ٹھوس معلومات ہیں پاکستان میں 66 ملین افراد پر مشتمل سویلین لیبر فورس ہے جن میں سے 62 ملین ملازم بر سر روزگار ہیں رسمی شعبے میں 10 ملین، غیر رسمی شعبے میں 30 ملین، اور زراعت کے شعبے میں 23 ملین ملازمین ہیں حکومت 3.2 ملین یا کل ملازم سویلین لیبر فورس کا 5.1 فیصد کام کرتی ہے 95% ملازمتیں نجی شعبے میں پیدا ہوتی ہیں اور نئے داخلے کو جذب کرنے میں حکومت کی شراکت ہمیشہ غیر معمولی رہے گی۔ ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں نجی فرمیں، فارمز اور کاروبار زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کریں جبکہ حکومت ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تربیت یافتہ، تعلیم یافتہ، صحت مند اور ہنر مند انسانی وسائل فراہم کرے ہر سرکاری ملازم کی خدمت کرنے والے تقریبا 63,345 لوگ ہیں جب کہ 1972 میں یہ تعداد 75,100 تھی سرکاری ملازمین ملک کی کل آبادی کا 1.57% ہیں کل سرکاری اخراجات جی ڈی پی کا تقریباً 22 فیصد ہے جبکہ ملازمین کی اجرت (تنخواہیں اور الاؤنسز) جی ڈی پی کا 3.6 فیصد اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مشترکہ موجودہ اخراجات کا 19 فیصد ہے۔ اگر ترقیاتی اخراجات کو شامل کیا جائے تو یہ تناسب کل سرکاری اخراجات کا 14 فیصدبن جاتا ہے بطورایک شہری اور ٹیکس دہندگان کے نقطہ نظر سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ 3.2 ملین ملازمین بنیادی عوامی اشیا اور خدمات کی فراہمی میں کیا کام انجام دیتے ہیں پہلے وفاقی حکومت اور اس کی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق تعیناتی کو دیکھیں 35% وفاقی ملازمین سیکیورٹی اور امن و امان کے اداروں (سویلین مسلح افواج جیسے رینجرز، فرنٹیئر کانسٹیبلری، پولیس، ایف آئی اے، انٹیلی جنس بیورو، اور جی ایچ کیو، پی اے ایف، اور پی این ہیڈ کوارٹرز اور اداروں میں کام کرنے والے عام شہری) میں خدمات انجام دے رہے ہیں صوبائی سطح پر تعلیم (41%) پولیس (19%)، اور صحت (15%) کل افرادی قوت کا 75% ملازم ہے بقیہ 25 فیصد آبپاشی، کام اور رہائش، زراعت، صنعت، منصوبہ بندی اور ترقی، خوراک، پانی اور سیوریج، شہری ترقی، مالیاتی انتظام، محصولات کی وصولی، مقامی حکومتوں، جنرل ایڈمنسٹریشن وغیرہ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں صوبائی حکومت کے اجرتوں کے بل میں تعلیم، صحت اور پولیس کا 72 فیصد حصہ ہے تعلیم اور صحت کے ملازمین ریاستہائے متحدہ میں کل اجرت کے بل کا تقریباً نصف حصہ ہیں سرکاری شعبے کے اساتذہ کی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے اساتذہ سے کہیں زیادہ ہیں اور پچھلے دس سالوں میں ان میں چار گنا اضافہ ہوا ہے آیا ان کی کارکردگی اور پیداوار ان کو دی جانے والی تنخواہوں کے مطابق ہے یا نہیں یہ سوالیہ نشان ہے اس وقت غربت اور مہنگائی کی وجہ سے تقریبا 20 ملین سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں یہی وجہ ہے کہ خواندگی کی شرح اور صحت کے اشاریے اور خطے کے دوسرے ممالک سے پیچھے ہیں اور انسانی ترقی کا اشاریہ پچھلی تین دہائیوں کے دوران بہت زیادہ آگے نہیں بڑھا پنجاب اور سندھ میں جب میٹرک تک کی تعلیم ضلعی حکومتوں کے حوالے کی گئی تھی تو آج کی نسبت زیادہ فعال اساتذہ کام کر رہے تھے اس وقت پنجاب کے 36 اضلاع میں پھیلے 36,000 سے زیادہ پرائمری سکولوں کا مؤثر طریقے سے انتظام نہیں کیا گیا ہم گریڈ 1–5 کو غیر ہنر مند، گریڈ 6–16 کو نیم ہنر مند، اور گریڈ 17–22 کو ہنر مند کے طور پر درجہ بندی کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت میں 95% ملازمین پہلی دو کیٹیگریز میں ہیں اور صرف 5% تیسری کیٹیگری میں ہیں غیر ہنر مند ، نائب قاصد، قاصد اورباغبان وغیرہ افرادی قوت کا 50% بنتے ہیں جب کہ 45% نیم ہنر مند ہیں یعنی ڈرائیور، کلرک، اسسٹنٹ وغیرہ یہ سب لوگ ملازمت میں آنے سے قبل اچھے بھلے مانسن ہوتے ہیں مگر جیسے ہی سرکاری نوکری ملتی ہے تو یہ اپنے رویوں سمیت سب کچھ بدل لیتے ہیں افسری انکی رگ رگ میں سما جاتی ہے اور پھر یہ جب تک عہدے پر رہتے ہیں اس وقت تک ان کے اندر سے افسری نہیں نکلتی مگر جیسے جیسے وقت گڑتا جاتا ہے پھر ان افراد کو پرانے دوستوں کی یاد ستانے لگتی ہے مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ہمیں بطور سرکاری ملازم اپنے رویوں کوتبدیل کرنا چاہیے خوش اخلاقی کا دامن ہاتھ میں پکڑے ہر آنے والے کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے تب کہیں جاکر ہم یہ دن منانے کے اہل ہونگے رہی بات پولیس کی وہ کسی کی بات سننا گوارا نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ گذشتہ روز ریلوے کے ریٹائرڈ ملازم نے ریلوے ہیڈ کوارٹر کی بالائی منزل سے چھلانگ لگا دی خودکشی کی کوشش کرنے والا ریٹائرڈ ملازم اپنے کیس کے لیے دفتر آیا تھا ریٹائرڈ ریلوے ملازم کو پچھلے 6 ماہ سے جی پی فنڈ نہیں ملا تھا مگر بے حس یہ عوامی خدمتگار جب اپنی کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں تو انکا انداز اور رویہ ہی بدل جاتا ہے غریب کا مذاق اور امیر سے حساب کتاب کرتے رہتے ہیں ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612224 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.