معافی نامہ

کسی بھی انسان سے اگر آپ ملاقات کریں ، تو آپ اس کی شخصیت کا کافی حد تک موازنہ کرسکتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرچکا تھا اور میں نے ان کی شخصیت میں ایک بچہ پن دیکھا اور انتہائی حساس دل رکھنے والا پایا۔

ان کی شخصیت کو اگر کچھ لفظوں میں بیان کرنا چاہوں تو وہ یہ ہوں گے کہ "وہ ایک خوشیاں بانٹنے والے اور لوگوں کا درد محسوس کرنے والے انسان تھے" اور میرے لئے یہ تعارف کافی تھا۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ اب تک سب نے مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت کے ساتھ لی جانے والی تصاویر چن چن کر سوشل میڈیا پر لگائیں اور کچھ لوگ ان سے جڑی اپنی یادیں اور لمحات دنیا کو بتا کر ان سے محبت کا اظہار کررہے ہیں۔

پوچھنا یہ تھا کہ آج کیسے اس انسان سے سب کی اتنی محبت جاگ گئی وہ بھی ان کے اَبدی نیند سوجانےکے بعد ؟

آج بھی نالگاتے پوسٹ ، شوق سے میمز بنالیتے۔۔

کیوں کہ یہاں تو ہر شخص کسی نہ کسی کو اپنے معیار کے ترازو میں تولنے کا فن جانتا ہے ۔

مذاق اور مزاح میں فرق رکھنا بہت ضروری ہے، دوسروں کی زندگی کو اجاڑنے سے بہتر ہے کہ ہمیں اسے سنوارنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

میرا مقصد کسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے، لیکن جس طرح سے سوشل میڈیا پر کردار کشی کی گئی اور عوام کا اس پر جو ردّ عمل آیا وہ انتہائی شرمناک تھا، ایک عام انسان تو اسی دن مر جائے۔

اور جس انسان کے آگے پیچھے میڈیا چینلز گھومتے پھرتے تھے، جو عزت اور شہرت کی عظیم بلندیوں پر تھا اور جب تک اس انسان کے ناگن ڈانس اور سرکس سے چینلز کی ریٹنگ عروج پر تھی، اپنے مفاد کے لئے چینلز مالکان نے اس وقت تک اس انسان کو اپنے ڈرائنگ روم میں بلا کر چائے کی پیشکش کی ۔ لوگوں کے درمیان رہنے والا ٹاپ ٹی وی اینکر ،کالم نگار، با اثر شخصیت, عالم، سیاست دان، لفظوں کو موتی کی طرح خوبصورتی سے پرونے کا فن جاننے والا، ناموس رسالت پر آواز اٹھانے والا،علماۓکرام کو ایک پیج پر لاکر انکی باتیں لوگوں تک پہنچانے والا، انسان کو انسان سے جوڑنے والا، جب اپنی ذاتی زندگی میں مشکل حالات سے نہجڑسکا اور سنبھل سکا تو آنے والے اس مشکل وقت میں سارے چینلز اور میڈیا انڈسٹری نے اس شخص کا بائیکاٹ کیا اور اس طرح ساتھ چھوڑا کہ پلٹ کر پوچھنا گوارا نہ کیا، تو میرے خیال سے ایسے شہرت یافتہ انسان کو زہر دینے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس انسان کے مرنے کے لیے اس کی "تنہائی" کافی ہوتی ہے۔

تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج اس انسان کے مرنے کے بعد بھی میڈیا صرف اور صرف اپنی کوریج اور مفاد کے لئے ہی اس کے گھر اور چھیپا کے سرد خانے کے باہر گھنٹوں کھڑا رہا تھا۔

اگر اب آج آپ یہ سوال کررہے ہیں کہ آپ نے عامر لیاقت حسین کو کیسا پایا؟
میرا اس پر جواب یہ ہے کہ آپ نے اس با اثر شخصیت کی ساری خدمات کو بھلا کر اس کی زندگی کے آخری چند دنوں میں ہی اس کو پایا اور یاد رکھا ۔ بس ۔۔

مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین برجستگی کی بہترین خوبیوں سے مالا مالتھے اور مرحوم طارق عزیز کے بعد اردو خطابت کے بے تاج بادشاہ رہیں گے . ہم خود ان تمام حرکات پر شرمندہ ہیں اور یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے کہ کسی کو اتنا مت آزماؤ کہ اسے اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لئے جان دینا پڑے اللہ پاک عیبوں پہ پردہ ڈالنے والا ہے۔

میرا یہ ماننا ہے کہ انسان میں لاکھ برائیاں صحیح لیکن ہر انسان میں آپ اس کی صفت تلاش کریں اور اس کو اپنانے کی کوشش کریں۔

یہ اللہ اور اسکے بندے کا معاملہ ہے اور آج ہم سب خود ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہوکر ان سے معافی مانگتے ہیں، بے شک۔

کہتے ہیں کہ جب بچہ کسی بزرگ کے پیچھے چھپ جاتا ہے تو اس کو بزرگ کے ادب میں معاف کردیا جاتا ہے۔ تو آج ان کو عبداللہ شاه غازی رحمت اللہ علیہ کے احاطے میں دفن کیا گیا ہے شاید یہ عمل اور آخری آرام گاہ انکی بخشش کا ذریعہ بن جائے ۔ آمین

الله رب العزت انکی مغفرت فرمائے اور اگلی منزل آسان فرمائے انا للہ و انا الیہ راجعون۔

کوئی کر نہیں رہا تھا میرے درد کا یقین
پھر یوں ہوا کہ مر کر دکھانا پڑا مجھے۔۔۔

الله حافظ!
 
Omer Baig
About the Author: Omer Baig Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.