شاہ راہِ زندگی سیریز
یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں مدرسے کا ہر طالب علم پنجم ششم کے زمانے سے
اور اسکول کالج کا ہر اسٹوڈنٹ دسویں بارہویں سے ہی سوچنا شروع کردیتا ہے،
یہ سوال دراصل اپنے اندر کئی سارے سوالات سموئے ہوئے ہے مثلاً
1 ہم کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہم آگے کریں کیا اور کس چیز کو اپنا مقصد بنائیں
2 اس مقصد تک پہنچانے والے گولز کیا کیا ہیں اور ان گولز کو کیسے حاصل کریں
3 مقصد اور گولز تو پتہ ہیں لیکن ان کو زمینی سطح پر لانے کے لیے میدان عمل
ہی نہیں ہے میرے پاس
4 میرے مقصد اور ضروریات کے درمیان ایسا خلا اور گیپ ہے کہ مجبوراً ضروریات
کی تکمیل میں مشغول ہوکر مقصد کے ساتھ سمجھوتہ اور کمپرومائز کرنا پڑرہا ہے
آئیے ان سوالات پر کھل کر ڈسکس کرتے ہیں، مضمون تفصیلی ہوسکتا ہے مگر ان
شاءاللہ مفید ہوگا
مقصد اور گول کا فرق
مقصد اور گول میں فرق یہ ہے مقصد وہ آخری پڑاؤ ہوتا ہے جہاں آپ کو پہنچنا
ہوتا ہے اور گول اس آخری پڑاؤ تک پہنچنے والی چھوٹی چھوٹی منزلیں
اسی طرح مقصد کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں تسلسل ہوتا ہے وہ کبھی مکمل
نہیں ہوتا لیکن گولز مکمل ہوجاتے ہیں۔
مقصد کی تعیین
مقصد کی تعیین اللہ سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا، "و ما خلقت الجن والانس الا
لیعبدون" میں عبادت کو مقصد قرار دیا گیا ہے، "فمن کان یرجو لقاء ربہ" کے
ذریعے رب کی ملاقات، "الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلیٰ و لسوف یرضی" کے ذریعے رب
کی رضا، "ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات لھم جنات" کے ذریعے جنت کا حصول،
"ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ" کے ذریعے
دنیا میں دین محمدی کی سربلندی، "و قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین
کلہ للہ" کے ذریعے فتنوں کا قلع قمع ہمارا مقصد قرار پایا، پھر علماء نے
مقاصد شریعت کے تحت ان تمام قرآن و احادیث کے مقاصد والی عبارات کا نچوڑ
"دینی و دنیوی منافع کا حصول اور دینی و دنیوی مفاسد کا دفعیہ" کی صورت میں
نکالا، بہرحال یہاں یہ بات ملحوظ دانش و خاطر و نظر رہے کہ امت محمدیہ کو
"کنتم خیر امت اخرجت للناس" ای لنفع الناس کے ذریعے جو مقصد زندگی عطا کیا
گیا ہے اس میں صرف انفرادی کامیابی پر نہیں بلکہ اجتماعی کامیابی پر زور
دیا گیا ہے، یہ امت محمدیہ کی ما بہ الامتیاز خصوصیت ہے، دوسری چیز اس امت
کا مقصد صرف آخرت کی کامیابی کو نہیں قرار دیا گیا بلکہ دنیاوی کامیابی
یعنی غلبۂ دین اور فتنہ کی سرکوبی کو بھی مقصد کا حصہ بنایا گیا ہے، لہٰذا
اگر کوئی شخص صرف اپنی انفرادی فلاح و بہبود کے لیے سوچتا ہے لوگوں کی نفع
رسانی اس کے مقصدِ زندگی کا حصہ نہیں یا صرف آخرت کی فکر کرتا ہے دنیا کی
بالکل فکر نہیں کرتا وہ کسی اور نبی کا امتی تو ہوسکتا ہے مگر میرے نبی پاک
احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی نہیں ہوسکتا۔
راہِ حیات اور کیرئیر کے انتخاب کی جاپانی تکنیک
جاپان میں اس تکنیک کو ایکیگائی (Ikigai) کہتے ہیں جس کا معنی ہے جینے کا
سبب اور مقصد، اس تکنیک کے مطابق ابھی آپ جس مقام پر بھی ہیں آپ خود سے
اولاً چار سوالات کی ایک لسٹ بنائیے۔
1 آپ کو کیا کیا کرنا پسند ہے؟ اسے شوق و جذبہ اور passion کہتے ہیں
2 آپ کے اندر کون سی بہترین صلاحیتیں موجود ہیں اور کن میدانوں میں بیسٹ
ہیں؟ اسے مہارت اور پروفیشن کا نام دیا جاتا ہے
3 آپ اپنے پاس موجود کن کن صلاحیتوں کے ذریعے پیسے کماسکتے ہیں؟ اسے
روزگار، پیشہ اور vocation کہا جاتا ہے
4 دنیا کو ضرورت کس چیز کی ہے اسے مقصد زندگی اور mission سے تعبیر کیا
جاسکتا ہے
جس شخص کو اپنے کام میں یہ چاروں چیزیں ایک ساتھ مل جائیں تو گویا اسے
ایکیگائی یعنی شاہراہِ زندگی نصیب ہوگئی۔
پیشن، مشن اور پروفیشن مل جائیں مگر ووکیشن نہ ملے تو آپ خوش تو رہیں گے
مگر غریب رہیں گے۔
پیشن، پروفیشن اور ووکیشن مل جائے مگر مشن نہ مل پائے اس کام میں تو سب کچھ
ہونے کے باوجود زندگی بے مقصد سی محسوس ہوگی۔
اگر مشن پروفیشن اور ووکیشن مل جائے مگر پیشن نہ ملے تو اندر سے خالی پن
محسوس ہوگا۔
اگر مشن، پیشن اور ووکیشن مل جائے مگر پروفیشن نہ ملے تو جوش و جذبہ پیسہ
سب کچھ ہوگا مگر غیر یقینی صورت حال ہوگی اپنے کام کو لے کر کیوں کہ وہ اس
کام میں ماہر نہیں ہوگا۔
اب یہاں پر تین زمانے ہیں ماضی حال اور مستقبل، ماضی سے سبق لے کر حال کو
بہتر بنا کر بہترین مستقبل کی بنیاد ڈالنی ہے، اس کے لیے تین چیزوں پر غور
کرنا ضروری ہے:
اپنی ذات، اپنے دوست اور اپنے حالات
معرفتِ ذات کے حوالے سے سات چیزیں سامنے رہنی چاہئیں:
1 مقصد، 2 ذہانت، 3 صلاحیت، 4 مزاج، 5 فن میں دل چسپی، 6 خواب، 7 اپنی
زندگی کے چنیدہ واقعات
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مشن تقویتِ امت قسط کی چودہویں قسط ہے
|