نپولین بوناپاٹ کا مشہور قول ہے:
"تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا"
ماں جس کے پیروں کے نیچے جنت ہے،ماں جو ایک مامتا ہے،ماں جو نام ہے احساس
کا،جو نام ہے ذمےداری کا، ماں جو اتحاد ہے ماں جو پیار ہے، ماں جو نام ہے
جذبات کا،ماں کا رتبہ تمام رتبوں سے اعلی ہے۔
ماں کے رتبے پر پہنچے سے پہلے وہی مونث ایک لڑکی کے روپ میں نظر آتی ہے جس
کی تربیت اس کے والدین کرتے ہیں جو اس کو سکھاتے ہیں کہ معاشرے میں کیسے
رہنا ہے لوگوں میں میل جول کیسے رکھنا ہے۔دوستوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے۔اچھی
تربیت ماں باپ کرتے ہیں اور اس کو نبھانے کا کام لڑکی کا ہوتا ہے۔جتنا اسکی
سمجھ اس کو اجازت دیتی ہے وہ اس کو نبھانے کی کوشش کرتی ہے۔
حضرت عمر فاروق کا قول ہے:
"اچھی لڑکیاں ہر جگہ نہیں چلی جاتیں ہر کسی سے نہیں ملتیں نا ہی ہر جگہ بال
کھولتی ہیں"
مگر آج کے معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو یہی عورت جو ابھی کم عمر ہے اس کی
تربیت ایسے کی جاتی ہے کہ کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ۔
آج کے معاشرے کی لڑکی اپنی تعلیم پر کم اور اپنے آپ پر زیادہ توجہ دیتی
ہے۔اس کو اپنوں پر نہیں باہر کے لوگوں پر اعتبار ہوتا ہے۔اس کو گھر میں
رہنا اچھا نہیں لگتا اس کو باہر وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔مجبوری کے نام پر
لوگوں سے تعلقات بناتی ہے۔آج کے معاشرے کی لڑکی کو اپنا آپ تو یاد ہے مگر
اپنا گھر یاد نہیں۔
یہی عورت یہی وہ عورت تھی جس کو ولی یا اولیا دیکھتے تھے تو عشق الہی میں
ڈوب جاتے تھے اور اپنے آپ کو اللہ کے لئے عورت کہہ کر مخاطب کرتے
تھے۔کیونکہ وہ جانتے تھے عورت کی محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ضدی طبیعت اس
کے انداز میں شامل ہوتی ہے۔محبت کرنے پر آئے تو اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں
کرتی۔اور محبت قربان کرنے پر آئے تو خوشی خوشی کردیتی تھی۔محبت کی تعریف
کسی سے پوچھنی ہو تو اس عورت سے لازمی پوچھنا جو محبت کر کے بھی خوش ہوتی
ہے یہ سوچ کر نہیں کہ محبت اس کو ملے گی۔ مگر وہ مطمئن رہتی ہے۔محبت کا
احساس اگر پوچھنا ہو تو اس اعلی ظرف عورت سے لازمی پوچھنا جو اپنے ہاتھوں
سے اپنے محبوب کی دلہن کو سجا کر اس کے حوالے کر آتی ہے اور اپنے
دکھ بھرے آنسوؤں کو خوشی کے آنسو کہتی ہے۔
پروین شاکر کا شعر عرض کیا ہے۔
کمال ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاوں گی۔
عورت جب محبت کرتی ہے تو اس میں فرمانبرداری کا عنصر قدرتی طور پر آجاتا ہے
چاہے وہ محبت محبوب سے ہو یا ماں باپ سے ہو، بہن بھائی سے ہو یا رشتہ داروں
سے، گھر سے ہو یا ملک سے ہو۔اس میں شعور سلیقہ آجاتا ہے وہ اپنی ذمہ داریوں
کو سمجھنا جان جاتی ہے۔وہ ہر حکم کی تعمیل کرتی ہے باغی نہیں ہوتی۔
اگر اس عورت کا موازنہ آج کی عورت سے کیا جائے جو محبت کے م سے بھی واقف
نہیں، اس کو عزت کی پرواہ نہیں ،جس ماحول کو اپنے آس پاس دیکھتی ہے اسے
اپنانے کے لئے فوراا تیار ہوجاتی ہے۔اس کی نطر میں پیسہ اور اونچی کلاس ہی
سب کچھ ہے۔اس کی نظر میں فیشن ہی سب کچھ ہے۔
اج کے معاشرے کی عورت جب بیوی کا روپ لیتی ہے تو سب سے پہلے خواہشوں کی
فہرست بناتی ہے سامنے والے کی استطاعت کیا ہے اسے کوئی غرص نہیں۔بڑوں کو
اپنے سامنے کچھ نہیں سمجھتی۔اپنا موازنہ دوسری شادی شدہ عورت سے ضرور کرتی
ہیں تاکہ دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کرسکیں اور اگر وہ اس مرض میں
مبتلا نہیں ہوتیں تو ان سے میل جول ختم کریتی ہیں۔اپنے گھر میں ذرا ذرا سی
باتوں پر نوک جھونک کر کے بات کو بگاڑ دیتی ہیں۔
صبر،قناعت،فرض،احساس،محبت،احترام ان سب سے دور رہتی ہیں۔
مقدس بندھن کا بھی پاس نہیں رکھتی۔
اکڑ، ضد،خودسر،بیوقوفی کا نام آج کی زبان میں عورت ہے۔جو اپنے گھر کو اپنے
ہی ہاتھوں سے تباہ کرلیتی ہیں۔
در حقیقت دوسروں کو بےوقوف سمجھنے والیں خود بے وقوف بن جاتی ہیں۔
یہی عورت جب ماں کا رتبہ پاتی ہیں تو مامتا کی جگہ آتما آجاتی ہے۔
بچوں سے دوری اپنا فرض سمجھتی ہیں اور بچوں کو اپنے لئے عذاب سمجھتی
ہیں۔کوشش ہوتی ہے کہ بچے ذرا سے چلنے کے قابل ہوں تو اسکول میں کچی پکی
جماعت میں بھیج دیاجائے اور جب آرام میں خلل پیدا کرے تو ٹیوشن لگادیا
جائے۔بچے کی پسند اور نفسیات کو سمجھنے کا وقت نہیں ملتا۔
گھر کے کاموں میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتیں۔دل کیا تو تیز تیز پکا
لیا نہیں تو مجازی خدا سے کہہ کر منگوالیا۔مجازی خدا جو دن رات محنت کر کے
اپنا سکون ختم کر کے گھر آتا ہے اور اخلاص کی جگہ بدتمیزی اور شکایات ملے
تو وہ ڈبل ڈیوٹی کو ترجیح کیوں نا دے۔
اولاد کو اچھے برے کی تمیز ماں سے بہتر کوئی نہیں بتاسکتا مگر ماں کے پاس
وقت میسر نہیں۔
اولاد جب بڑی ہوتی ہے تو اس کو فطری طور پر ایک دوست درکار ہوتا ہے جو اس
کی باتیں سنے اس کے ساتھ وقت گزارے اس سے مشورہ کرے اس کے ساتھ رہے۔
ماں سے بہترین دوست کوئی ہوتی نہیں اور آج کے معاشرے کی ماں دوست بننا نہیں
چاہتی، اس کے لئے یہ تمام باتیں بے ضرر ہیں۔
جب بزھاپے کو پہنچ جاتی ہیں تو سب کو یہی بتاتی ہیں کہ اولاد خیال نہیں
رکھتی اولاد اللہ نے اچھی نہیں دی۔
اپنے حلقہ احباب میں اولاد اور شوہر کو بدنام کرتی ہیں۔
غرض کہ:
نا تم اچھی اولاد بنی نا اچھی لڑکی نا تم اچھی بیوی بنی نا ہی اچھی بہو نا
ہی اچھی ماں نا ہی اچھی بہن نا ہی اچھی ساس اور نا ہی اچھی دوست۔
اج کے معاشرے کی عورت کو سمجھایا بھی جائے تو اسی پر شک کرتی ہے اور غلط
راستوں کا انتخاب کرتی ہے۔جن خوابوں کو حقیقت سمجھتی ہے وہی حقیقت خوابوں
میں لے جاتی ہے جس کا نتیجہ موت ہے۔
عورت معاشرہ بناتی ہے معاشرے کو سنوارتی ہے کیونکہ ایک عورت اپنی اولاد کو
بناتی ہے اس کو سمجھاتی ہے جب اولاد کا سامنا لوگوں سے ہوتا ہے تو وہ اس
تربیت کی عزت کرتے ہیں جو ایک ماں نے کی ہوتی ہے۔معاشرے کے اندر تبدیلی
پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے اور معاشرہ ترقی کرنے لگتا ہے۔
|