سیمیں خان درانی کی مبینہ خودکشی

آہ سیمیں خان درانی
——-
ہمارے معاشرے کاسب سے بڑا المیہ اس کی منافقت ہے - مغربی معاشرے میں منافقت نہیں ہے اس لیے ان کے مسائل ہمارے مسائل جیسے نہیں ہیں -کہنے کو تو پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں اسلامی نظام کی جگہ انگریز کا بنایا ہوا عدالتی نظام رائج ہے -اور جمہوریت کی جگہ سول مارشل لاء نے لے رکھی ہے - اس معاشرے میں کسی عورت کا عورت ہونا ایک بڑا جرم ہے - اور اگر عورت لکھاری ہے تو پھر تو اس پر بغاوت کی دفعات بھی لگتی ہیں -عورت غریب ہے تو وہ مرد کے ساتھ معاشی جدوجہد میں شامل ہے اور کی اس جدوجہد کا صلہ اسے شوہر کی گالی گلوچ اور مار پیٹ کی شکل میں ملتا ہے - عورت اگر پڑھی لکھی ہے تو کبھی کبھی اس کا با شعور ہونا ہی اس کا جرم بن جاتا ہے - سیمیں خان درانی کا بھی یہ ہی جرم تھا کہ وہ شاعرہ تھی افسانہ نگار تھی - وہ خوب صورت تھی ، خوش ادا تھی ا اسلام آباد کے ادبی حلقے کی جان تھی -اچھے خاندان سے تھی مگر بد قسمت تھی - اس کے خوبصورت وجود کے اندر چھپا غم ، اس کے قہقہوں میں چھپا درد کسی کو دکھائی نہ دیا - والدین کی اطاعت ہی اس کا جرم بن گئی- والدین نے اس کی شادی سندھ کے ایک وڈ یر ے سے کردی - سسرال اور شوہر دونوں کے ساتھ نبھاتے نبھاتے سیمیں دو بیٹوں کی ماں بن گئی -بیٹے کی ماں ہمارے معاشرے میں بہت خوش قسمت تصور کی جاتی ہے لیکن سیمیں تو بد قسمت تھی - پڑھے لکھے جاہل شوہر کے مظالم سہنا اس کے لیے کرب ناک تھا بچوں کی خاطر نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بے سود رہی اورسیمیں خان درانی کو طلاق ہوگئی - بیٹے چھین لیے گئے ان کی شکلیں دیکھنے کو ترس گئی - ایک لمبی جدوجہد کے بعد بچے سیمیں کو مل گئے - سیمیں کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی -دو ماہ قبل اس کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ہوا تھا اور وہ کافی بہتر تھی کہ اس کی وفات کی خبر آگئی -سیمیں کی چند دن پرانی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی پولیس کو ملی - پولیس نے خود کشی کا ٹھپہ لگایا اور لاش ورثا کے حوالے کردی - اور 7 جولائی 2022 کو سیمیں کی بہاولپور میں تدفین کردی گئی - سیمیں خان درانی خواتین فورم کے صدر کی حیثیت سے ادب کی دنیا میں خواتین کی فکری ترقی کے لیے کام کر رہی تھی -وہ 4 فروری 1971 کو راولپنڈی میں پیدا ہو ہی تھیں -سیمیں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی اور سٹی بینک سے مینیجر سٹی گولڈ کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ملازمت کے دوران سیمیں نے بزنس ڈویلپمنٹ، کارپوریٹ قانون، ہیومن ریسورس منیجمنٹ، پروجیکٹ مینجمنٹ اور مارکیٹنگ میں وسیع تجربہ حاصل کیا۔

سیمین درانی نے NUML کے پہلے بیچ میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم دی۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ رہی -سیمین درانی نے اپنی زندگی کے دوران متعدد عنوانات حاصل کیے جن میں صدر پاکستان پیٹرولیم نیٹ ورک، ایسوسی ایشن کے صدر، طلباء پبلک ایڈمنسٹریشن، ہوسٹن میں مقیم نیوز لیٹر کے شیف ایڈیٹر اور معروف ماہانہ میگزین سنگت کے ایڈیٹر شامل ہیں۔

سیمیں بچپن سے ہی ادب میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں ۔2020 میں سیمیں کے افسانوں کا مجموعہ “آنول نال “ چھپا - جن میں پیڈو فیلیا، سائنس فکشن، تقابلی مذہبی عقائد اور تانیثی تصورات کو موضوع بنایا گیا ہے -

طویل نا خوشگوار ازدواجی زندگی کے بعد علیحدگی، بچوں کے قانونی حصول کے لیے جنگ، ہارٹ اٹیک، بیک بون ٹیومر اور ڈپریشن نے سیمیں کو کمزور کردیا تھا

سیمیں کو قتل کیا گیا یااس نے خود کشی کی - یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے - لیکن مرنے کے بعد وہ زندگی کے بدصورت چہرے سے نجات پا گئی - اب اسے کسی کی گالیاں نہیں سنائی دیں گی - کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھائے گا اسے ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں ملے گی - سیمیں نے زندگی میں بہت درد سہے اللہ تعالی اس کا وہ جہان اچھا کرے وہاں اسے سکون نصیب ہو -آمین
——
سیمیں درانی کی آخری نظم الوداع پڑھئیے

الوداع ۔۔۔۔۔۔سیمیں درانی

میری تعلیم
میرے ماں باپ کی تربیت
اور میرے خاندان کی ناموس
وقت ِ بندھن
میرے تمام تر پر
کاٹ دیتی ہے
وہی پر
کہ
جنکو سنوارتے بڑھاتے
میرا بوڑھا باپ
عمر خمیدہ ہوا
اور
میری ماں
ان میں رنگ بھرتے بھرتے
اپنے ہی سب رنگ
کھو بیٹھی
پھر
وہ دن آن پہنچا
کہ جب
انگنت انجان چہرے
ایک ایسا نر لائے
جس کو
ایک پر کٹی مادہ کی تلاش تھی
پھر
میں نے آہستہ آہستہ
اپنے تمام پر
دیں و دنیا کی بُنی روایات سے
کترنے شروع کردیئے
کچھ سے حنا گھولی
کچھ سے منہ پہ لالی لگائی
اور پھر آخری پر سے
اس معائدے پہ دستخط کئے
جو مجھے اس شخص کی جاگیر بناتا تھا
وقت رخصتی
میری ماں نے اپنا دوپٹہ
اور باپ کی پگڑ کو
رشتوں کے دھاگے سے سی کے
میری آنکھوں پہ باندھا
اور کہا
الوداع۔
——

Nadia Umber Lodhi
About the Author: Nadia Umber Lodhi Read More Articles by Nadia Umber Lodhi: 51 Articles with 89150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.