فریج کھول کر مٹھائی کیوں کھائی، پیٹ بھر کھانا کھانے کی خواہش نے معصوم بچے کو قبر کی منوں مٹی تلے پہنچا دیا

image
 
گزشتہ سال عظمیٰ نامی کم عمر ملازمہ بچی کی شکل اور کیس تو سب ہی کو یاد ہوگا جس کو اس کے مالکان نے کپڑے جلا دینے پر سر پر فرائی پین مار کر ہلاک کر دیا تھا یا پھر کم سن طیبہ کی سوجی ہوئی آنکھیں اور چوٹوں سے بھرا ہوا جسم اور چہرہ بھی سب کو یاد ہوگا-
 
جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنے مالکوں کے بچوں کے کھانے کو چکھنے کا جرم کیوں کیا تھا۔ ہر ایسے واقعہ کے بعد بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے گئے تھے کہ اب اس سلسلے کو روکا جائے گا مگر کچھ دن کے بعد جس طرح قوم کے حافظے پر دھول جم جاتی ہے ویسے ہی قانونی فائلوں پر بھی جمی گرد ان ظالموں کو جیل کی کال کوٹھری سے نکال باہر کرتے ہیں-
 
عید کے دوسرے دن کا قیامت خیز واقعہ
عید ایک ایسا دن ہوتا ہے جب کہ ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس دن کو اپنے پیاروں کے ساتھ گزار سکے اور عید تو ہوتی ہی بچوں کی ہے- مگر گیارہ سالہ کامران اور سات سالہ رضوان کی غربت نے ان کے بچپن کو ایک جانب چھین لیا اور دوسری طرف عید جیسے اہم موقع پر بھی گھر والوں کی بھوک کو ختم کرنے کے لیے ان کو گھر سے دور رہنے پر مجبور کر دیا تھا-
 
image
 
بڑے گھر اور چھوٹے دل والے لوگ
بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ان دونوں بھائيوں کو کسی کی معرفت لاہور کے پوش ترین علاقے ڈیفنس کی ایک بڑی کوٹھی میں جب کام ملا تو ماں باپ کو یہ تسلی بھی کہ دونوں بھائی کم از کم پیٹ بھر کر کھانا تو کھا سکیں گے اور دوسری جانب مہینے میں اتنے پیسے بھی مل جائيں گے جس سے وہ اپنا پیٹ پال سکیں-
 
مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ بڑے گھروں میں رہنے والے لوگوں کے دل اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ فریج سے بغیر اجازت ایک ٹکڑا مٹھائی کا کھانے پر جان سے مار دیتے ہیں-
 
معصوم بچوں کی ملازمت اور گھر والوں کا سلوک
گیارہ سال اور سات سال کی عمر کے یہ دونوں بھائی گزشتہ چھ ماہ سے لاہور ڈيفنس میں ملازمت کر رہے تھے۔ دونوں بچوں کی عمریں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ لاابالی پن کا دور ہوتا ہے جب بچے کھانا پینا، پڑھنا لکھنا اور گھومنا پھرنا پسند کرتے ہیں ان کے اوپر کام کاج کی ذمہ داری ڈالنا قانونی طور پر بھی ایک جرم ہے اور فطری طور پر بھی وہ اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ کچھ ایسا کر سکیں-
 
یہی وجہ ہے کہ ملازمت اختیار کرنے کے باوجود بھی یہ بچے روز ہی گھر والوں سے کسی نہ کسی بات پر مار کھاتے تھے اور گھر کا ہر فرد کم و بیش ان کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا-
 
ایک ٹکڑا مٹھائی کھانا جرم ٹہرا
تفصیلات کے مطابق عید کے دوسرے دن گیارہ سالہ کامران اور سات سالہ رضوان نے فریج میں رکھی مٹھائی کو گھر والوں کی اجازت کے بغیر نکال کر کھا لیا- ان کو ایسا کرتے ہوئے گھر کے مالک کے بیٹے ابو الحسن نے دیکھ لیا-
 
image
 
مٹھائی کے ایک ٹکڑے کی چوری نے ابوالحسن کو اس حد تک غضب ناک کر دیا کہ اس نے دونوں بھائيوں کو بری طرح مارنا شروع کر دیا۔ لاتوں مکوں، ڈنڈوں غرض ہر ہر چیز سے اس نے ان دونوں کو مارا اور اپنا غصہ نکال کر ان بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر چلا گیا-
 
زخمی اور مرن حال بچوں کا کوئی نہیں
جب ابوالحسن کے گھر والوں نے ان بچوں کی حالت دیکھی تو ان دونوں کو اٹھا کر قریبی ہسپتال لے جا کر چھوڑ کر فرار ہوگئے جہاں گیارہ سالہ کامران زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو گیا جب کہ سات سالہ رضوان بھی بری طرح زخمی ہے-
 
ہسپتال انتطامیہ نے جب اس حوالے سے پولیس سے رابطہ کیا جنہوں نے ان بچوں کو ہسپتال لے کر آنے والے تین افراد کو سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے شناخت کر کے گرفتار کر لیا- تاہم ابو الحسن ابھی بھی مفرور ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے-
 
گرفتار ہو بھی گئے تو سزا کون دلوائے گا
پاکستانی قوانین کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کروانا جرم ہے مگر بار بار ایسے واقعات اور گرفتاریوں کے باوجود لوگ یہ جرم بار بار کر رہے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ قانون پر مناسب انداز میں عمل درآمد نہ ہونے کے سبب اور پیسے سے سب خرید لینے والے لوگوں کے لیے کسی کی جان لے کر بھی جیل کی کال کوثھری سے باہر آجانا مشکل نہیں ہے-
 
یہی وجہ ہے کہ آئے دن معصوم بچوں پر جو کہ گھریلو ملازمین ہوتے ہیں تشدد کے واقعات میں نہ صرف اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے بلکہ ایسے ظالم سزا نہ مل سکنے کے سبب معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: