|
|
کراچی سے لاہور جاکر پسند کی شادی کرنے والی دعا زہرا کا
کیس اس وقت پورے ملک میں زبان زد عام ہے، کوئی لڑکی کی پسند کی شادی کا
حامی ہے تو کوئی والدین کی حمایت کرتا نظر آتا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ
معاملہ مزید الجھتا جارہا ہے۔ |
|
کیس کیا ہے؟ |
16 اپریل 2022 کو کراچی کی رہائشی دعاء زہرا کے مبینہ اغواء کا معاملہ منظر
عام پر آیا اور انہی دنوں میں دعا کے علاوہ بھی ایک لڑکی کے اغواء کی
اطلاعات موصول ہوئیں اور ایک ساتھ 2 نوجوان لڑکیوں کے اغواء نے میڈیا کی
بھرپور توجہ حاصل کی اور سندھ پولیس کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کو بھی
حرکت میں آنا پڑا۔ |
|
دعا کی بازیابی |
عدالتی احکامات، والدین کے اسرار اور حکومت کی مداخلت کی وجہ سے سندھ پولیس
نے پوری جان لڑا کر دعا زہرا کو پنجاب سے بازیاب کروالیا اور انہی دنوں دعا
زہرا کی ظہیر احمد نامی نوجوان سے پسند کی شادی کی اطلاعات سامنے آئیں ،دوسری
جانب دعا کے علاوہ غائب ہونیوالی نمرہ کاظمی بھی شادی کرکے منظر عام پر
آئیں اور ان کے والدین نے لڑکے کو قبول کرلیا جس کے بعد معاملہ رفع دفع
ہوگیا جبکہ دعا نے عدالت اور میڈیا کے سامنے بھرپور طریقے سے اغواء کی
تردید کی اور اپنی پسند سے شادی کا برملا اعلان کیا لیکن اس کے والدین اور
وکلاء کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں- |
|
|
|
کیس کی صورتحال |
اغواء اور جبری شادی کے حوالے سے والدین کی درخواستوں پر دعا زہرا کا
میڈیکل ہوچکا ہے جس میں عمر کا تعین 15 سے 16 سال تک ہے، دعا کے نکاح خواں
اور گواہ گرفتار ہیں اور اس کے شوہر ظہیراحمد کی 14 جولائی تک حفاظتی ضمانت
کا آج آخری دن ہے۔ |
|
4 سوال جن کے جوابات نہیں ملے: |
دعا زہرا کراچی سے ٹیکسی کے ذریعے کیسے لاہور پہنچی، پیسے کہاں سے آئے،
ٹیکسی والا کون تھا اور اتنی تفتیش کے باوجود ٹیکسی ڈرائیور سامنے کیوں نہ
آسکا؟ |
|
دعا زہرا پابندیوں کی وجہ سے فرار ہوئی یا والدین واقعی زبردستی کسی سے
شادی کروانا چاہتے تھے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے حوالے سے دونوں طرف سے دعوے
تو بہت ہوئے لیکن حقیقت اب تک واضح نہیں ہوسکی- |
|
دعا کے والدین کا کہنا ہے کہ پیشی پر ملاقات کے دوران قانون نافذ کرنے والے
اداروں کی جانب سے دعا سے بات کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ہے اور نہ
ملنے دیا جاتا ہے- دوسری جانب اداروں نے اب دعا کے والدین کے اس الزام کی
نہ تو کوئی تردید کی ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان
جاری کیا گیا ہے |
|
ایک جانب دعا کا کہنا ہے کہ میرے والدین مجھے مارتے پیٹتے تھے اور میری
زبردستی شادی کروا رہے تھے جبکہ دوسری طرف خود دعا کا ہی یہ کہنا مجھے
والدین نے ٹیب اور انٹرنیٹ مہیا کر رکھا تھا جس کی مدد سے ظہیر سے بات کرتی
تھی- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی والدین ایسے سخت مزاج تھے تو انہوں
نے دعا کو اتنی آسائشیں کیوں دے رکھی تھیں- اور یہی سے ایک سوال اور بھی
جنم لیتا ہے کہ دعا کی وجہ سے کیا والدین اپنے بچوں کو اسمارٹ فون وغیرہ
دینا چھوڑ دیں؟ |
|
|
|
حاصل کلام |
اس تحریر کا مقصد دعا زہرا کی حمایت یا اس کے والدین کی
مخالفت کرنا نہیں بلکہ اس کیس کے حوالے سے چند اہم باتوں پر غور کرنا ہے کہ
والدین کیسے اپنے بچوں کو اس نہج پر پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔ بچوں پر بے جا
سختیاں اور بہت زیادہ آسائشیں بھی مشکلات کا سبب بنتی ہیں۔ دعا زہرا کے
معاملے میں اب تک کئی سوال ہنوز حل طلب ہیں اور ہمیں امید ہے کہ یہ کیس
معاشرے کیلئے ایک مثال بن چکا ہے اور والدین یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں
کہ کیسے نوعمر بچوں کو انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھا جائے اور اپنی عزت
اور عصمت کی حفاظت کی جائے۔ |