معاشی لحاظ سے کمزور معاشرے میں قربانی کے نام پر ریا کاری کا فروغ
(Ch Zulqarnain Hundal, Gujranwala)
تحریر۔ذوالقرنین ہندل لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے مکینیکل انجینئر ہیں۔ سماجی، سیاسی اور سائنسی عنوانات پر متعدد مضامین لکھ چکے ہیں۔ سال 2019میں توانائی کی درجہ بندی میں آگاہی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی عید گزر گئی۔ لاکھوں جانور قربان ہوئے۔ لذیذ ترین پکوانوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔با حیثیت افراد نے اپنے شوق کے مطابق مہنگے ترین جانور قربان کئے۔ اللہ سب کی قربانی قبول کرے۔ آمین۔ سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر دیکھ رہا تھا،کہ ایک صاحب نے ایک کروڑ کا ایک جانور خریدا جس کی خوب تشہیر ہو رہی تھی۔اسی طرح دیگر کئی صاحبان بھی لاکھوں مالیت کی جانور خریدکر تشہیر کا حصہ بن رہے تھے۔ درحقیقت یہ سب اپنے شوق کو پورا کررہے تھے۔ قربانی ایک دکھاوہ، شوق ہے یا فرض؟ قربانی ایک مقدس اسلامی فریضہ ہے۔جو ہر سال سنت ابراہیم علیہ اسلام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔جو خالصتاَ رب کی رضا کے لئے ہے۔اور ہر اس شخص پر فرض ہے،جو صاحب استعطاعت ہے۔ قربانی کا مقصد احساس پیدا کرنا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم لوگ قربانی کی حقیقی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بیشتر لوگوں کے نزدیک قربانی صرف جانور قربان کرنا ہے۔ درحقیقت قربانی کا مقصد اپنی انا کو قربان کر کے دوسروں کے لئے احساس اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ قربانی کا مقصد ہر گز دکھاوہ اور اپنے شوق کو پورا کرنا نہیں ہے۔بلکہ معاشرے میں غرباء اور مساکین جو ہمارے اپنے ہیں ان کے لئے احساس کو فروغ دینا ہے۔ہماری قربانی کا مقصد دکھاوے، شوق کو پورا کرنے کی بجائے غریب معاشرے کے لئے مفید ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں مہنگے جانور خرید کر تشہیر کرنے کا رجحان پروان چڑھ چکا ہے۔ جس سے ہمیں اپنے حلقہ احباب میں تو خوب داد ملتی ہے۔ مگر قربانی کا اصل مقصد پورا نہیں ہوتا۔ ہم اسی رقم سے زیادہ جانور خرید کر زیادہ گوشت بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے اسی میں سے کچھ رقم مساکین کی ضروریات کو پورا کرنے میں صرف کردیں۔ قربانی کی روایت ان مساکین کی محرومیاں دور کرنے لئے تھی،جو سارا سال اچھی خوراک حاصل نہیں کر پاتے۔ مگر یہاں سب الٹ چل رہا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور میڈیا پر مہنگے جانوروں اور مہنگے کھانوں کی اتنی تشہیر ہو رہی ہے، جس سے معاشی لحاظ سے کمزور افراد محرومیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ فرض کریں اگر پاکستان بھر میں پچاس لاکھ جانور قربان ہوئے ہیں۔ اور ایک جانور کی اوسط قیمت پچاس ہزار لگالیں۔ان کی مالیت دو کھرب پچاس ارب بنتی ہے۔بات گوشت کی تقسیم کی ہو تو میں اس تقسیم کے طریقہ کار سے ہر گز مطمئن نہیں ہوں۔گوشت اصل حقداروں تک پہنچتا ہی نہیں بلکہ چند گروہ متحرک ہوتے ہیں،جو جگہ جگہ سے گوشت اکٹھا کر کے مختلف ریستورانوں میں بیچ دیتے ہیں۔ فرض کریں میں غلط ہوں۔گوشت کی تقسیم ٹھیک ہو رہی ہے۔ گوشت آخر کتنے دنوں تک چلے گا۔ چند دنوں میں اس کے باقیات نالوں میں بہہ جائیں گے۔ اگر ریاست مضبوط ہو اور قربانی کا نظام اپنے ہاتھ میں لے۔ اس رقم سے نہ صرف قربانی کر کے یونین کونسل کی سطح پر گوشت حقداروں تک پہنچا یا جا سکتا ہے۔بلکہ کچھ رقم سے غریب بچیوں کی شادیاں، غریب طبقے کے لئے رہائشی کالونیاں، اور چھوٹے چھوٹے کاروبار وغیرہ جیسے کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ جس سے نہ تو لوگ بے جا گوشت کھا کھا کر بیمار ہوں گے، اور نہ ہی گلی محلوں میں جانوروں کے باقیات کی بد بو پھیلے گی، اور نہ ہی گوشت کی تقسیم کا مسئلہ رہے گا۔بلکہ سنت ابراہیمی کو اصلی روح کے مطابق لاگو کر کے لاکھوں لوگ خوشحال ہو سکتے ہیں۔آج ہم اپنی غلط پالیسیوں اور جامد سوچ کی بدولت معاشی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ہم لوگ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو صحیح طریقے سے سمجھ ہی نہیں سکے۔اسی لئے ہم لوگ زمانے کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ان روایات کا مقصد ایک اچھے متوازن معاشرے کا فروغ تھا۔اور ان روایات کو دور جدید میں مثبت و مفید جدت کے ساتھ لاگو کرنا ہم پر منحصر ہے۔لیکن اس کے برعکس ہم اس میں ایسی تبدیلیاں لا رہے ہیں،جن سے ہمارا معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔
مگر افسوس کہ ہم معاشی لحاظ سے پسماندہ لوگوں کی سوچ بھی پسماندہ ہے اور ہمارے لیڈران اور پالیسی ساز بھی پسماندہ ذہنیت کے مالک ہیں۔اور ہم آئے دن معاشی قرض کے بوجھ تلے دب کر مہنگائی جیسی سزا کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جس سے آئے روز بے روزگاری کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کیا ہمیں ایک غیر مستحکم ملک بننا ہے؟ کیا ہمارے آباؤ اجداد نے ایک غیر مستحکم ملک کا خواب دیکھا تھا؟ ہر گز نہیں! ذرا سوچئے!
|